آرٹس کونسل میں منعقدہ آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کی قرار داد

جمعہ 11 دسمبر 2015 22:43

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 دسمبر۔2015ء)آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیرِ اہتمام 8تا11؍ دسمبر 2015ء کو منعقد ہونے والی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس حسب ذیل نکات پر مشتمل یہ قرار داد منظور کرتی ہے:اردو کو سرکاری زبان بنانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ جوابدہ بھی بنایا جائے۔

پاکستان کی تمام قومی زبانوں کو بلا تخصیص قبولیت اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ملک کی مختلف زبانوں میں ماضی اور حال میں تخلیق ہونے والے ادب کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کے لیے ایسے اداروں کی تعمیر کی جائے جن میں ماہرین تراجم کا کام کرسکیں ۔ ان اداروں میں ترجمے کے فن کے لیے تربیتی کورسز بھی شروع کیے جائیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں کتب بینی کے فروغ کے لیے کالجوں اور جامعات کی لائبریریوں کے علاوہ پبلک لائبریریاں بھی قائم کی جائیں۔

خاص طور پر لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں پبلک لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنائیں اور اپنے بجٹ کا ایک مناسب حصہ ان کے لیے مختص کریں۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں پر لازم آتا ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے مالی وسائل میں اضافے کو یقینی بنائیں۔مطالعے کے شوق اور ادب سے رغبت پیدا کرنے کے لیے کلاسیکی اور جدید ادب کو سرکاری سطح پر سستے اور دیدہ زیب ایڈیشنوں کی شکل میں شائع کر کے کم قیمت پر فروخت کرنے کا انتظام کیا جائے۔

ہم ٹیلی ویژن کے چینلوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی نشریات میں زبان وبیان کی صحت کا خیال رکھنے کے نقطۂ نظر سے ایسے افراد اور شعبوں کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں جو یہ کام احسن طور پر کرسکیں۔پاکستان کے ثقافتی ورثے سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے تمام صوبوں میں متعلقہ وزارتیں، خصوصی منصوبے تشکیل دیں جو نئی نسل کو پاکستان کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے قریب لاسکیں۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔پاکستان میں ادبی کانفرنسوں اور کتب میلوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے اور یہ پروگرام صرف صوبائی دارلحکومتوں میں ہی نہیں بلکہ صوبوں کے دوسرے شہروں میں بھی منعقد کیے جائیں۔ اس قسم کے پروگراموں میں مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک دوسرے سے ملنے اور باہمی رفاقت کے مواقع میسر آسکتے ہیں لہٰذا اس طرح کی سرگرمیاں پاکستان میں ایک حقیقی قومی وحدت کے قیام میں معاون ثابت ہوں گی۔

پاکستان میں زبان وادب اور علمی نوعیت کے جن اداروں میں ایڈہاک بنیادوں پر کام چلایا جارہا ہے وہاں میرٹ کی بنیاد پر مستقل افراد کی تعیناتی کی جائے۔ تاکہ یہ ادارے ان مقاصد کی تکمیل کر سکیں جن کے لیے ان کو قائم کیا گیا ہے۔ہم ملک کی مختلف جامعات میں قائم زبان وادب کے شعبہ جات سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں جامعات سے باہر کے اہلِ فکر اور تخلیق کاروں کے ساتھ اپنے روابط میں اضافہ کریں گے تاکہ جامعات کا معاشرے سے تعلق ایک نامیاتی رشتے کی صورت اختیار کرسکے۔

اس کانفرنس کے مندوبین اور شرکاء جنوبی ایشیا میں امن کے حوالے سے پائی جانے والی مخدوش صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم متعلقہ ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ باہمی مسائل کو پر امن ذرائع اور شہریوں کے مفادات کو اولیت دیتے ہوئے حل کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ہم اسلحے کی دوڑ خواہ وہ روایتی اسلحے کی ہو یا ایٹمی اسلحے کی، سخت مذمت کرتے ہیں۔

ہماری سوچ کے مطابق وہ جملہ وسائل جو اسلحہ سازی اور اسلحے کی دوڑ کی نذر کیے جارہے ہیں ان کا حقیقی مصرف شہریوں کی بہبود اور معاشرتی ترقی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہم ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اعتماد سازی کے اقدامات جو ماضی میں طے پائے تھے ان سے آگے بڑھتے ہوئے آپس میں عدم جنگ کا معاہدہ (No War Pact)کریں۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شہریوں کی آمدورفت کو آسان بنایا جائے۔

دونوں ممالک میں اساتذہ اور محققین، ادیبوں اور شاعروں کے اپنے ملک سے دوسرے ملک میں جانے اور وہاں کے علمی اور تحقیقی وسائل اور مآخذ سے استفادہ کو آسان بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ویزا کے حصول میں حائل دشواریوں کو دور کیا جائے۔ہم کتابوں، جرائد، رسالوں اور دیگر علمی اور ادبی مواد کی ایک سے دوسرے ملک میں ترسیل کو سہل اور سستا بنانے کا پُر زور مطالبہ کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہم حکومت پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ کتابوں اور ادبی رسائل و جرائد کے ڈاک خر چ کو کم کیا جا ئے تا کہ عوام ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ گذشتہ چندسال کے دوران ڈاک کے خر چ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔کتابوں کے فروغ کے لئے اس اضافے کو واپس لیا جا ئے۔ہم جنوبی ایشیا کے ملکوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سے ہر طرح کی منافرت، عداوت اور انتہا پسندی پر مشتمل مواد کو خارج کرنے اور اسکی جگہ رواداری اور انسان دوستی پر مشتمل مواد کو نصاب میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔