ڈھاکہ سے آخری پی آئی اے فلائٹ پر وطن واپس آیا ، پاکستان بنتے ، ٹوٹتے دیکھا ،انتخاب عالم

Umer Jamshaid عمر جمشید بدھ 16 دسمبر 2015 13:11

ڈھاکہ سے آخری پی آئی اے فلائٹ پر وطن واپس آیا ، پاکستان بنتے ، ٹوٹتے ..

لاس اینجلس (اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔16 دسمبر۔2015ء) پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور موجودہ منیجرانتخاب عالم سقوط ڈھاکہ کے وقت اس پاکستانی الیون کے کپتان تھے جو ڈھاکہ کی بد سے بدتر ہوتی صورت حال میں انٹرنیشنل الیون کے خلاف غیرسرکاری ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی۔اس انٹرنیشنل الیون کے کپتان مکی سٹیورٹ تھے جو انگلش کاوٴنٹی سرے کے کپتان تھے جس سے انتخاب عالم بھی کھیلتے تھے۔

انتخاب عالم نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں ان یادوں کو پھر سے تازہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پاکستان بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور ٹوٹتے ہوئے بھی میں 1947 میں اپنے والدین کے ساتھ جلی کٹی اور خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں دیکھتا ہوا پاکستان پہنچا تھا۔ وہ پاکستان پہنچنے والی آخری ٹرین تھی جس میں ہم سوار تھے۔

(جاری ہے)

میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس وقت میری کیا حالت تھی۔

مجھے کیا پتہ تھا کہ میں اسی طرح کی ایک اور صورت حال سے گزروں گا۔انتخاب عالم پاکستان بنتے وقت کی صورت حال کو سقوط مشرقی پاکستان سے زیادہ قیامت خیز قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ 1971 میں بھی جو کچھ ہوا وہ کم نہ تھا۔غیر سرکاری ٹیسٹ میچ کے آخری دن پہلے مجھے فائرنگ کی آوازیں آئیں اور پھر لوگوں نے سٹیڈیم میں دھاوا بول دیا اور ہم تمام کھلاڑی ڈریسنگ روم میں دو ڈھائی گھنٹے تک بند رہنے کے بعد بڑی مشکل سے ایم این اے گیسٹ پہنچے جہاں سے انٹرنیشنل الیون کے کھلاڑیوں کو ان کے ہوٹل روانہ کیا گیا لیکن ہماری ٹیم اپنے ہوٹل اس لیے نہ جا سکی کیونکہ وہاں شیخ مجیب الرحمٰن پریس کانفرنس کر رہے تھے اور ہمیں وہاں آنے سے منع کر دیا گیا۔

انتخاب عالم کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل الیون کے کھلاڑیوں کی خوش قسمتی تھی کہ پی آئی اے کی ایک پرواز ڈھاکہ سے جا رہی تھی جس سے انھیں روانہ کر دیا گیا۔مہمان کرکٹر تو ڈھاکہ سے فوری طور پر نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن ہمیں وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ ایک فلائٹ جانے والی ہے جسے بریگیڈیئر حیدر کنٹرول کر رہے تھے جن سے میں نے درخواست کی کہ ہماری ٹیم اور امپائروں کو روانہ کرنے میں مدد کریں۔

اس دوران ہم اپنے ہوٹل کے کمروں سے صاف دیکھ سکتے تھے کہ ایک بڑے سے میدان میں شیخ مجیب الرحمٰن ایک جوشیلے ہجوم کے سامنے حلف لے رہے تھے۔ اگرچہ ہمیں ہوٹل کے منیجر نے یقین دلایا کہ آپ لوگ محفوظ ہیں اور ہوٹل میں کھانے پینے کا وافر ذخیرہ موجود ہے لیکن ہم جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔انتخاب عالم ڈھاکہ سے روانگی کو کسی معجزے سے تعبیر کرتے ہیں۔

ہماری ٹیم کو ایک ٹرک میں سوار کرایا گیا جس کے آگے فوجی جیپ تھی۔ مجھے ڈپٹی کمشنر نے جیپ میں بٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو اس پر نصب مشین گن چلا دیجیے گا۔اگرچہ ہوٹل سے ہوائی اڈا بہت زیادہ دور نہیں تھا لیکن تمام راستے ہمیں جلی ہوئی گاڑیاں نظر آئیں اور سڑک پر موجود رکاوٹوں کو ہم کھلاڑیوں کو بار بار اترکر ہٹانا پڑا کیونکہ ہماری حفاظت کے لیے بلائے گئے پولیس والے بھاگ گئے تھے۔

ہوائی اڈے پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس فلائٹ پر چڑھنے کے لیے بیتاب تھے جو ڈھاکہ سے روانہ ہونے والی آخری فلائٹ ثابت ہوئی۔ میں نے بڑی مشکل سے بریگیڈیئر حیدر کو تلاش کیا لیکن میں جتنی دیر میں ان تک بھاگتا ہوا پہنچتا سپاہیوں نے مجھ پر رائفلیں تان لیں جن کی سنگینوں کو میں اپنے جسم میں چبھتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ بریگیڈیئر حیدر نے ہمیں جہاز پر سوار کرانے میں مدد کی اور یوں ہم سری لنکا کے راستے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔

ڈھاکہ سے آخری پی آئی اے فلائٹ پر وطن واپس آیا ، پاکستان بنتے ، ٹوٹتے ..