اسلام پر تنقید میں ہاتھ ہلکا رکھیں، ملکی سلامتی خطرے میں ہے،آسٹریلوی خفیہ ایجنسی

سیاستدانوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق بہت سخت بیانات قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ،بیان

جمعرات 17 دسمبر 2015 20:34

اسلام پر تنقید میں ہاتھ ہلکا رکھیں، ملکی سلامتی خطرے میں ہے،آسٹریلوی ..

کینبرا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔17 دسمبر۔2015ء)آسٹریلیا کے قومی خفیہ ادارے کے سربراہ نے حکمران قدامت پسند پارٹی کے سیاستدانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسلام پر تنقید کرتے ہوئے اپنا ہاتھ ہلکا رکھیں کیونکہ یہ بات قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ بیان کے بعد بحث میں گزشتہ ہفتے خاص طور پر اس وقت مزید شدت آ گئی تھی، جب سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے اپنے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا، ’’ہم اسلام کے ساتھ بہت بڑے مسئلے کے بارے میں انکار پسندی کی سوچ کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔

ٹونی ایبٹ کا یہ موقف امریکی سیاستدان اور ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں ٹرمپ نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد کہا تھا کہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

اس تناظر میں آسٹریلیا کے قومی خفیہ ادارے آسٹریلین سکیورٹی انٹیلیجنس آرگنائزیشن کے سربراہ ڈنکن لوئس نے حکمران لبرل نیشنل اتحاد کے سرکردہ سیاستدانوں سے رابطہ کر کے کہا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرتے ہوئے محتاط رویے اور نرم بیانی سے کام لیں۔

ڈنکن لوئس نے کہاکہ آسٹریلیا میں ملکی خفیہ ادارہ اپنی معلومات کے لیے زیادہ تر مسلم برادری کے بارے میں اس کے اندر سے ملنے والی قابل اعتماد معلومات پر انحصار کرتا ہے اور سیاستدانوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق بہت سخت بیانات نہ صرف ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ اس طرح خفیہ معلومات کے حصول میں اضافی مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

اخبار ’دی آسٹریلین‘ کے مطابق خفیہ ادارے کے سربراہ ڈنکن لوئس کے اس اقدام کی جمعرات کے روز ملکی خاتون وزیر خارجہ جولی بشپ نے بھی تائید کر دی۔ جولی بشپ نے سڈنی میں کہاکہ اگر خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کی رائے یہ ہے کہ اس موضوع پر عوامی بحث کے نتیجے میں اگر وہ سارا کام ضائع ہو سکتا ہے، جو انسداد دہشت گردی کے مقصد کے تحت اب تک ان کے ادارے نے کیا ہے، تو ظاہر ہے کہ انہیں اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کر سکیں۔