سندھ اسمبلی کے اجلاس میں صرف 40 منٹ میں ایجنڈے کے 14 نکات پر کارروائی نمٹا دی گئی

جمعہ 18 دسمبر 2015 17:06

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 دسمبر۔2015ء ) سندھ اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کو صرف 40 منٹ میں ایجنڈے کے 14 نکات پر کارروائی نمٹا دی گئی ۔ اجلاس میں سرکاری ارکان کی تعداد اپوزیشن ارکان سے کم تھی ۔ اپوزیشن ارکان اسپیکر کی توجہ اس بات پر مبذول کراتے رہے کہ وہ اکثریت میں ہیں اور کارروائی کو مسترد کر رہے ہیں لیکن کارروائی تیزی سے چلتی رہی ۔

اپوزیشن ارکان کے زبردست شور شرابے اور احتجاج کے دوران اسپیکر نے اجلاس منگل کی صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا لیکن بعد ازاں اسمبلی سیکرٹریٹ نے وضاحت کی کہ اجلاس پیر تک ملتوی کیاگیا ہے ۔اجلاس جمعہ کو صبح 10 بجکر 40 منٹ پر اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اجلاس کے آغاز میں حکومت اور اپوزیشن کے صرف 11 ارکان موجود تھے ۔

(جاری ہے)

بعد ازاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔

تلاوت کلام پاک ، نعت رسول مقبولﷺ اور فاتحہ خوانی کے بعد محکمہ سماجی بہبود سے متعلق وقفہ سوالات شروع ہوا ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے اسپیکر کو کورم کی نشاندہی کی لیکن اسپیکر نے انہیں جواب دیا کہ مجھے پتہ ہے ۔ مجھے نہ بتایا جائے ۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے وزیر ماحولیات اور ساحلی ترقی ڈاکٹر سکندر میندھرو نے متعدد ارکان کے تحریری اور ضمنی سوالوں کے جوابات دیئے ۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2011-12 کے دوران محکمہ سماجی بہبود کو چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں معذور افراد کے 17 بحالی مراکز کام کر رہے ہیں ۔ ان میں سے 12 مراکز معذور بچوں اور 5 مراکز بڑے معذور افراد کے لیے مختص ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ سماجی بہبود کی طرف سے این جی اوز کو مستقل بنیادوں پر کوئی فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے ہیں لیکن محکمہ سماجی بہبود میں رجسٹرڈ کچھ فعال مقامی این جی اوز کو گرانٹ فراہم کی جاتی ہے ۔

وقفہ سوالات کے بعد توجہ دلاوٴ نوٹس کا وقفہ شروع ہوا لیکن توجہ دلاوٴ نوٹس والے ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے ۔ لہذا ان پر کسی صوبائی وزیر نے جواب نہیں دیا ۔ بعد ازاں مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن نندکمار کی تحریک التواء کی باری تھی ۔ لیکن وہ بھی ایوان میں موجود نہیں تھے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر سکندر میندھرو نے اسمبلی میں سندھ سیلز ٹیکس آن سروسز ( ترمیمی ) آرڈی ننس 2015 ایوان میں پیش کیا ۔

اس دوران اپوزیشن ارکان نے ” نو نو “ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ۔لیکن اجلاس کی کارروائی جاری رہی ۔ایک مرحلے پر ایوان میں حکومت کے 17 اور اپوزیشن کے 24 ارکان تھے ۔ شور شرابے کے دوران ڈاکٹر سکندر میندھرو نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مختلف آڈٹ رپورٹس بھی پیش کیں ۔ ان میں خشک سالی کے دوران لوگوں کی مدد کے پروگرام 2010-11 ، پبلک سیکٹر انٹر پرائزز حکومت سندھ برائے مالی سال 2014-15 ، حکومت سندھ کے حسابات برائے 2014-15 ، ڈسٹرکٹ کونسل اور میونسپل ایڈمنسٹریشنز کے چیف آفیسرز کے اکاوٴنٹس ، سیکرٹری محکمہ بلدیات ، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حسابات برائے مالی سال 2012-13 کی آڈٹ رپورٹس شامل تھیں ۔

بعد ازاں کم از کم اجرت کا بل 2015 متعارف کرایا گیا ۔ اسمبلی میں تحریک استحقاق نمبر 6 پر کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی ۔ اس کے علاوہ مختلف اسٹینڈنگ اور اسپیشل کمیٹیز کی رپورٹس پیش کرنے کی تاریخ میں توسیع بھی کی گئی ۔ ان میں ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی ، پرائمری ہیلتھ کی اسٹینڈنگ کمیٹی ، تحریک استحقاق نمبر 2 پر قائم کی گئی اسپیشل کمیٹی اور تحریک استحقاق نمبر 3 پراستحقاق کمیٹی کی رپورٹس شامل تھیں ۔

اسمبلی کی کارروائی کے دوران اپوزیشن ارکان اسپیکر کی توجہ اس جانب دلاتے رہے کہ اپوزیشن ارکان کی تعداد سرکاری ارکان سے زیادہ ہے اور وہ اسمبلی کی کارروائی پر ” نو نو “ کے نعرے لگاتے رہے ۔ اپوزیشن ارکان نے مسلسل احتجاج بھی کیا اور اسپیکر کی ڈائس کے سامنے بھی جا کر نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان نے اسپیکر سے کہا کہ کارروائی اتنی تیزی سے کیوں چلائی جا رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ مسلم لیگ (فنکشنل ) کے رکن شہریار خان مہر اور اسپیکر آغا سراج درانی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ تلخ کلامی کے وقت اسپیکر نے اپنا مائیک بند کر دیا ۔ اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران اسپیکر آغا سراج درانی نے اجلاس صبح 11 بجکر 20 منٹ پر آئندہ پیر تک ملتوی کر دیا ۔

متعلقہ عنوان :