گزشتہ 8 سالوں میں آرٹس کونسل میں ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو نظر انداز کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی کا شکار ہیں،سینیٹر نسرین جلیل

ہفتہ 19 دسمبر 2015 20:26

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19 دسمبر۔2015ء) سینیٹر اور سابق نائب ناظمہ نسرین جلیل نے کہا ہے کہ ادیب ،شاعر، مصور، فنکار اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد نہایت حساس ہوتے ہیں ، آرٹس کونسل میں ان کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہو تو خاموش نہیں رہا جاسکتا گزشتہ 8 سالوں میں مخصوص افراد کی اجارہ داری کے باعث شہر کے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو نظر انداز کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی کا شکار ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ شب ڈیفنس کلفٹن ریذیڈینس کمیٹی کی جانب سے شہر قائد پینل کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، تقریب میں حیدر عباس رضوی، سینیٹر خوش بخت شجاعت، کنور خالد یونس، خلیل احمد نینی تال والا، حاجی شفیق الرحمن، سبین سیف، ایوب کھوسہ،امجد فرید صابری، صدارتی امیدوار رضوان صدیقی، جنرل سیکریٹری کے امیدوار نجم الدین شیخ، فرقان حیدر، سلیم آفریدی، امین یوسف، حسینہ رضوی، محمود احمد خان ،فلم، ٹی وی ، اسٹیج کے فنکاروں و اداکاروں سمیت آرٹس کونسل کے ممبران کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ اس موقع پر کراچی کلب کے نو منتخب سیکریٹری جنرل جاوید کریم نے کلب کے صدر اشفاق تولہ اور معروف تاجر عقیل کریم ڈیڈھی اور کراچی کلب کی جانب سے شہر قائد پینل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان بھی کیا۔

(جاری ہے)

نسرین جلیل نے کہا کہ فنون لطیفہ کی بقاء اور اس کے فروغ کے لئے متحدہ قومی موومنٹ سمیت شہر کے مختلف علمی، ادبی حلقوں نے شہر قائد پینل کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اور آج کی تقریب میں ممبران نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرکے اس فیصلے کی توثیق کردی ہے اب 20 دسمبر کو صرف رسمی کارروائی ہونا باقی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اور آرٹس کونسل کے ممبر حیدر عباس رضوی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان سمیت پورے خطے میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے اور اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تین کروڑ کی آبادی والے اس شہر کی آرٹس کونسل میں ممبران کی تعداد صرف 5 ہزار 200 ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ کراچی میں ادیبوں، شاعروں اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کمی نہیں بلکہ ان کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیئے جاتے کیونکہ آرٹس کونسل میں براجمان افراد کو اپنی شان میں قصیدے پڑھنے اور سننے سے فرصت ملے اور وہ تصاویر و ستائشی مضامین سے باہر نکلیں تو انہیں کچھ معلوم ہو انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر میں صرف ایک آرٹس کونسل نہ ہو بلکہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر بھی اس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرپور نمائندگی مل سکے اور ان کی پذیرائی ہوسکے۔

سینیٹر خوش بخت شجاعت نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل اس شہر کا سب سے بڑا ثقافتی و ادبی ادارہ ہے جو اپنا منفرد مقام اور تشخص رکھتا ہے اس ادارے سے فیض احمد فیض، زیڈ اے بخاری اور صادقین جیسی قدآور شخصیات وابستہ رہی ہیں مگر گزشتہ چند سالوں میں جو کچھ یہاں دیکھنے میں آرہا ہے اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل میں ہونے والے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس میں اراکین نے شہر قائد پینل کو ووٹ دینا ہے کیونکہ آرٹس کو چہروں کی نہیں بلکہ کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔

شہر قائد پینل کے جنرل سیکریٹری کے امیدوار نجم الدین شیخ نے کہا کہ شہر قائد پینل آرٹس کی بہتری ، لوٹ کھوسٹ کے خاتمے اور یہاں خوشگوار ماحول قائم کرنے کے لئے میدان عمل میں آیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اراکین ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور ہمارے پورے پینل کو کامیاب کرائیں گے۔ صدارتی امیدوار رضوان صدیقی نے شہر قائد پینل کے قیام اس کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہر قائد پینل کراچی میں بسنے والے تمام قومیتوں کا نمائندہ پینل ہے اور آرٹس کونسل کی بہتری اور ترقی کے لئے مشترکہ جدوجہد جاری رہے گی۔

انہوں نے اراکین سے کہا کہ اگر ہم کامیاب ہونے کے بعد مثبت نتائج نہ دے سکے تو ہم آئندہ سال آپ سے ووٹ کی اپیل نہیں کریں گے ۔ تقریب سے خلیل احمد نینی تال والا، امین یوسف، ایم ظہیر خان، سبین سیف، ایوب کھوسہ، امجد فرید صابری، جاوید کریم، کسٹم کلیئرنگ اینڈ فاروڈرنگ ایسوسی ایشن کے سابق عہدیدار سیف اللہ سمیت دیگر لوگوں نے بھی خطاب کیا اور شہر قائد پینل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔

متعلقہ عنوان :