پاک بھارت تعلقات میں ”اچانک“کی اہمیت :سب کچھ ”اچانک“ہورہا ہے

Umer Jamshaid عمر جمشید ہفتہ 26 دسمبر 2015 11:52

پاک بھارت تعلقات میں ”اچانک“کی اہمیت :سب کچھ ”اچانک“ہورہا ہے

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔26 دسمبر۔2015ء) پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں آج کل لفظ”اچانک“ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔براستہ روس افغانستان پہنچنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے ’اچانک‘ لاہور آنے کے اعلان نے میڈیا سمیت سب کو ہکا بکا کر دیا۔ آخر بیٹھے بٹھائے انھیں کیا ایسی سوجھی کہ لاہور اترنے کا ارادہ کر لیا؟اس سے قبل ایک اور ’اچانک‘ پیش آ چکا تھا اور وہ تھا اوفا میں۔

وہاں بھی کسی کو توقع نہیں تھی کہ دونوں میں ملاقات ہوگی۔ خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ مصافحہ ہو گا، لیکن نہ صرف ہینڈ شیک ہوا، ملاقات ہوئی بلکہ تفصیلی مشترکہ بیان بھی سامنے آگیا۔اس سال جولائی میں اوفا کے اعلامیے کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ محض مختصر ملاقات کا نتیجہ تھا۔

(جاری ہے)

جس انداز سے تعلقات کی بہتری کے لیے اہداف کی تعین کیا گیا تھا اس سے لگتا تھا کہ خاصی عرق ریزی ہوئی ہے۔

اس کے بعد پیرس میں ایسا کیا ’اچانک‘ ہوا کہ دونوں رہنما ایک صوفے پر براجمان ہوئے اور دو پرانے دوستوں کی طرح کھسر پھسر کرنے لگے؟ کسی کو اس طرح کی ملاقات کی توقع ہرگز نہیں تھی۔اب کابل پہنچ کر ایسا اچانک کیا ہوا کہ دونوں وزرائے اعظم میں ایک اور ملاقات طے پا گئی؟بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اس تمام معمے کے پیچھے ’بیک چینل‘ سفارت کاری کا کردار ہو سکتا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے جولائی میں ضاحت کی تھی کہ اوفا میں جس ٹریک ٹو سفارت کاری پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق ہوا تھا دراصل وہ بیک چینل سفارت کاری ہی ہے۔ یہ رابطے بظاہر رنگ لا رہے ہیں۔ ’اچانک‘ کی وجہ یہی بیک چینل سفارت کاری ہے۔دراصل دونوں ممالک کے درمیان اگر مشکل مسائل پر بات آگے بڑھنی ہے تو وہ عوام اور میڈیا کی نظروں سے دور رہ کر ’اچانک موڈ‘ میں ہی بڑھ سکتی ہے۔

دونوں ممالک کا میڈیا اور چند دیگر عناصر تو اس طرح کی پیش رفت سے کبھی شاید خوش نہ ہوں۔اس کی ایک مثال گمنام ٹوئٹر اکاوٴنٹ ’پراوڈ خاکی‘ کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست دان مودی کے دورے سے زیادہ خوش نہ ہوں۔ چند ماہ قبل ہی وہ بنگلہ دیش کو سقوط ڈھاکہ کی تصاویر پیش کر رہے تھے۔

متعلقہ عنوان :