مشرف سے ذاتی لڑائی نہیں ، سٹیل ملزکیس اوربی اے سند کی تصدیق کافیصلہ حق میں چاہتے تھے ، افتخار چوہدری

پارلیمانی نظام نے ملک کو کچھ نہیں دیا، صدارتی نظام ہمارے مسائل کا حل ہے قسماًکہہ سکتا ہوں ارسلان افتخارکے ملک ریاض سے کوئی تعلقات نہیں تھے نہ ہی اس نے کبھی اس کا چہرہ دیکھا ، میرا بیٹاصاف شفاف ہے اس کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ،نجی ٹی وی کو انٹرویو

ہفتہ 26 دسمبر 2015 21:59

مشرف سے ذاتی لڑائی نہیں ، سٹیل ملزکیس اوربی اے سند کی تصدیق کافیصلہ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 دسمبر۔2015ء) سابق چیف جسٹس اورجسٹس وجمہوری وطن پارٹی کے سربراہ افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ میں سیاسی جج کبھی بھی نہیں رہا ،اس وقت صرف انصاف فراہم کرنا ہی اولین ترجیح تھی ،اگر میں سیاسی جج ہوتا تو دوسال انتظار نہ کرتا اورریٹائر ہوتے ہی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کردیتا،میں نے بطور جج بے رحمانہ احتساب کا آغاز کیا کبھی کسی کو چھوٹ نہیں دی ،نظام کی بہتری میں بطور چیف جسٹس میرابہت اہم کردارہے اگر آج اس ملک میں احتساب کی بات ہوتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے ڈرکی وجہ سے ہوتی ہے وہ ڈر جو میں نے بطورچیف جسٹس قائم کیا، 1999میں مشرف کے اقدامات کی توثیق میں نے نہیں کی دیگر 12جج بھی اس میں شامل تھے،اگرمیں نے توثیق کی ہوتی تو نو مارچ کو ان کے خلاف نہ کھڑا ہوتا، میری مشرف سے ذاتی لڑائی نہیں تھی ،اس وقت کچھ کیس چل رہے تھے جن میں اہم سٹیل ملزکاکیس اوردوسرا بی اے کی سند کی تصدیق تھی مشرف چاہتے تھے کہ دونوں کیسزکا فیصلہ میں ان کے حق میں دوں مگر میں نے ایسا نہیں کیا اورفیصلہ خلاف دیا،قسماًکہہ سکتا ہوں ارسلان افتخارکے ملک ریاض سے کوئی تعلقات نہیں تھے اورنہ ہی اس نے کبھی اس کا چہرہ دیکھا ،میرے بیٹاصاف شفاف ہے اس کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ،ہفتہ کو نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس اورجسٹس وجمہوری وطن پارٹی کے سربراہ افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ میں سیاسی جج کبھی بھی نہیں رہا ،بطور جج میں نے حلف لیا تھا اس وقت سیاست کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،اس وقت صرف انصاف فراہم کرنا ہی اولین ترجیح ہوتی ہے ،اگر میں سیاسی جج ہوتا تو دوسال انتظار نہ کرتا اورریٹائر ہوتے ہی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کردیتا،جب میں چیف جسٹس آف پاکستان تھا تب کبھی بھی ریٹائر ہوکر سیاست میں آنے کا نہیں سوچا تھا ،ریٹائر ہونے کے بعد ملکی حالات دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم کوئی ایسانظام لائیں جو باقی سب سے مختلف ہو،انہوں نے کہاکہ مشرف کی سیاسی جماعت کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا میں اپنی جماعت کا سربراہ ہوں اوراس کے لیے جوابدہ ہوں،انہوں نے کہاکہ پارٹی فنڈنگ کوئی نہیں کررہا اورنہ ہی ایسا کوئی ارداہ ہے فی الحال صرف جو عہدیدارچنے جائیں گے ان سے فیس لیکر نظام چلائیں گے،انہوں نے کہاکہ پارٹی کی ممبر شپ فیس صرف دس روپے رکھی گئی ہے لیکن اگر کوئی ایک لاکھ بھی دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے ،میں نے ایک ہزار روپے فیس جمع کرائی اورمیری حیثیت بھی اتنی تھی میں آج بھی کرائے کے گھر میں رہتا ہوں،سابق چیف جسٹس نے کہاکہ میں نے بطور جج بے رحمانہ احتساب کیا کبھی کسی کو چھوٹ نہیں دی ،نظام کی بہتری میں بطور چیف جسٹس میرابہت اہم کردارہے اگر آج اس ملک میں احتساب کی بات ہوتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے ڈرکی وجہ سے ہوتی ہے وہ ڈر جو میں نے بطورچیف جسٹس قائم کیا،انہوں نے کہاکہ بہت سارے مقدمات آج بھی زیر التواء ہیں سپریم کورٹ کے ججز وہ کیس نہیں لگا رہے ،انہوں نے کہاکہ ہم سستا ترین انصاف عوام کو مہیا کریں گے،ہم وہ نظام حکومت متعارف کرائیں گے جو ہمارے بعد آنے والے بھی اس پر عمل پیر اہوں گے،سابق چیف جسٹس نے کہاکہ 1999میں مشرف کے اقدامات کی توثیق میں نے نہیں کی دیگر 12جج بھی اس میں شامل تھے،اگرمیں نے توثیق کی ہوتی تو نو مارچ کو ان کے خلاف نہ کھڑا ہوتا،انہوں نے کہاکہ میری مشرف سے ذاتی لڑائی نہیں تھی ،اس وقت کچھ کیس چل رہے تھے جن میں اہم سٹیل ملزکاکیس اوردوسرا بی اے کی سند کی تصدیق تھی اوردونوں کے خلاف میں نے فیصلہ دیا ،مشرف مجھ سے بی اے کی سندجو مدراس سے جاری شدہ تھی اس کی تصدیق چاہتے تھے لیکن وہ اسناد مدارس کے قوانین کے خلاف تھیں اس لیئے میں نے فیصلہ خلاف دیا جبکہ سٹیل مل کیس میں وزیراعظم شوکت عزیز ملزم تھے ،اس کے بعد مشرف ہائیکوررٹ کے ایک جج کو سپریم کورٹ کاچیف جسٹس لگانا چاہتے تھے جسے میں نے قبول نہیں کیا ،ان کا کہناتھا کہ مشرف نے بند کمرے میں ملاقات کے دوران میرے خلاف جھوٹے الزمات عائد کیے تھے اسی وجہ سے میں ان کے سامنے انکار کردیا،اوراس وقت کہاکہ میں استعفی بھی نہیں دوں گا،اس وقت وہاں پر بڑے بڑے جرنیل بیٹھے ہوئے تھے اس موقع پر وزیراعظم شوکت عزیزبھی ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے میں ان کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھاانہوں نے کہاکہ میں مشرف سے ملنے نہیں گیا تھا بلکہ وہاں ہماری کانفرنس ہونا تھی اورمشرف بھی وہیں موجود تھے جس کے بعد ان سے وہیں پر بند کمرے میں میری ملاقات کرائی گئی ،انہوں نے کہاکہ بھارتی وزیراعظم نریندرامودی کا پاکستان آنا خوش آئند ہے ملکی مفاد میں کوئی بھی اقدامات کیے جائیں گے ان کوسپورٹ کریں گے،انہوں نے کہاکہ میرے بیٹے کے خلاف جو کیس بنے اس پر ایک جوڈیشل کمیشن بنا اس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا گیا سپریم کورٹ سے کلیئرنس ملنے کے بعد میرے بیٹے کو رہائی ملی ،اورجب تک سپریم کورٹ نے اسے کلیئر نہیں کیا تب تک میں نے اسے اپنے سے الگ رکھا انہوں نے کہاکہ میرے بیٹے کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیا دتھے ،میں قسماًکہہ سکتا ہوں کہ اس کے ملک ریاض سے کوئی تعلقات نہیں تھے اورنہ ہی اس نے کبھی اس کا چہرہ دیکھا ،میرے بیٹاصاف شفاف ہے اس کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ۔

متعلقہ عنوان :