مرزا غالب کا 218 واں یومِ پیدائش منایاگیا

مرزا غالب کا نام اسد اﷲ بیگ اور والد کا نام عبداﷲ بیگ تھا‘ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے

اتوار 27 دسمبر 2015 11:16

مرزا غالب کا 218 واں یومِ پیدائش منایاگیا

آگرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 دسمبر۔2015ء) منفرد اسلوب کے حامل اردو زبان کے عظیم ترین شعراء میں سے ایک اسداﷲ خان المعروف مرزا غالب کا 217 واں یومِ پیدائش 27دسمبر کو منایاگیا۔مرزا غالب کا نام اسد اﷲ بیگ اور والد کا نام عبداﷲ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اﷲ بیگ نے کی لیکن 8 سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا، 1810 میں 13 سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہٰی بخش خاں معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

(جاری ہے)

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے، اس دوران انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔

آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی۔شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انھوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا، جنگ آزادی 1857 کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہوگئی۔

چنانچہ انقلاب 1857 کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے خط لکھا انہوں نے 100 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادمِ حیات ملتا رہا، مرزا غالب کی زندگی نے حالات کے بدلتے رنگوں کواپنانے سے انکار کردیا۔15 فروری 1869 کو مرزا اسد اﷲ بیگ کی روح اس جہان فانی سے کوچ کرگئی اور پیچھے چھوڑ گئی شاعری کی صورت میں ان کی یادیں۔میر تقی میر سے لے کر غالب کے دور تک جتنے شعراء بھی گزرے ہیں ان کی مہارت اور استادی کسی ایک فن کی مرہونِ منت ہے۔میر غزلوں کے خدائے سخن ہیں۔ سودا قصائد اور ہجونگاری کے مردِ میدان ہیں۔میر حسن مثنوی میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں لیکن غالب کا فن حدود و رسوم سے بلند اور شاعری کے اعلیٰ ترین معیار کا ترجمان ہے۔