پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں آبی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، ڈیلے ایکشن ڈیمز مٹی جمنے کی وجہ سے غیر موثر ہوچکے ہیں ،پانی کے غلط انتظام کی وجہ سے مختلف فصلوں کی پیداوار متاثر ،سندھ میں 7 لاکھ ایکڑ زمین سیم اور تھور سے متاثر،ملک کا 11 ملین ہیکڑ علاقہ صحراؤں پرمشتمل ،پینے کے پانی کی فراہمی شدید مسئلہ ، چاول کی کاشت کے لئے پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے، بیڈو فرو طریقہ سے چاول کاشت کر کے 80 لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ پانی کی بچت کی جا سکتی ہے،پی سی آر ڈبلیو آر نے آبپاشی کے لئے زیر زمین پانی پر انحصار کرنے والے کسانوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے ملک بھر میں 30 ہزار سے زائد رعایتی شمسی ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے سفارشات وفاقی حکومت کو بھیج دیں

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کا رپورٹ میں انکشاف

اتوار 27 دسمبر 2015 13:29

پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں آبی ذخائر ..

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 دسمبر۔2015ء ) پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل (پی سی آر ڈبلیو آر) نے انکشاف کیا ہے کہ زیر زمین پانی ملک کے کل آبی وسائل کی ضروریات کا 80 فیصد مہیا کرتا ہے ۔زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں زیر زمین آبی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔ بلوچستان حکومت کے تیارکردہ ڈیلے ایکشن ڈیمز جو زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لئے تعمیر کیے گئے ہیں ۔

مٹی جمنے کی وجہ سے غیر موثر ہوچکے ہیں ۔پانی کے غلط انتظام کی وجہ سے مختلف فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے ۔ سندھ میں 7 لاکھ ایکڑ زمین سیم اور تھور کی وجہ سے متاثر ہے ۔ سیم اور تھور زراعت پر مضر اثرات ڈال رہے ہیں ۔ پاکستان کے پاس اس کی زمین کی خصوصیات کے متعلق معلومات کی شدید کمی ہے ۔

(جاری ہے)

ملک کا 11 ملین ہیکڑ علاقہ صحراؤں پرمشتمل ہے جہاں پر پینے کے پانی کی فراہمی شدید مسئلہ ہے ۔

پی سی آر ڈبلیو آر نے دعویٰ کیا ہے کہ چاول کی کاشت کے لئے بہت زیادہ پانی خرچ ہوتا ہے اور ان کے بنائے گئے بیڈو فرو طریقہ سے چاول کاشت کر کے 80 لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔پی سی آر ڈبلیو آر نے آبپاشی کے لئے زیر زمین پانی پر انحصار کرنے والے کسانوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے ملک بھر میں 30 ہزار سے زائد رعایتی شمسی ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے سفارشات وفاقی حکومت کو بھیج دیں ہیں۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل نے حالیہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کا انحصار زیر زمین پانی پر بڑھتا جا رہا ہے اور زیر زمین پانی ملک کے کل آبی وسائل کی ضروریات کا 60 فیصد مہیا کرتا ہے ۔ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بلوچستان سمیت ملک کے زیر زمین آبی ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے ۔ جو کہ زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لئے تعمیر کیے گئے ہیں ۔

مٹی جمنے کی وجہ سے غیر موثر ہو چکے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں تقریباً سات لاکھ ایکڑ زمین سیم و تھور سے متاثرہ ہے اور سیم اور تھور زراعت پر بہت مضر اثرات ڈال رہے ہیں ۔ پاکستان میں پانی کی غلط انتظام اور بد انتظامی کی وجہ سے مختلف فیصلوں کی پیداوار دیگر ممالک سے کم ہے ۔ توانائی کا بحران آبپاشی کے لئے زیر زمین پانی پر انحصار کسانوں کو بری طرح متاثر کرر ہا ہے ۔

رپورٹ نے مزید انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس اس کی زمینوں کی خصوصیات کے متعلق معلومات شدید کمی ہے جو کسی بھی ملک کی طاسی تحقیقات اور ماڈلنگ کے لئے بنیادی ضرورت ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چاول جو کہ ملک کے 52 لاکھ ایکڑ رقبے پرکاشت کی جاتی ہے سب سے زیادہ آبپاشی والی فصل ہے ۔پی سی آر ڈبلیو آر نے رپورٹ میں مزید بیان کیا ہے کہ ملک کا تقریباً 11 ملین ہیکڑ علاقہ جن میں چولستان ، تھر و خاران چاغی وغیرہ شامل ہیں صحراؤں پر مشتمل ہے اوران صحراؤں میں پینے کے پانی کی شدید کمی ہے اور پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔

پی سی آر ڈبلیو آر نے ادارے کی کارکردگی کو بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ادارے نے تھل چھج، رچنا اور باری دوآب میں زیر زمین پانی کے متعلق نقشہ بندی اور پیمائش کر لی ہے کیونکہ زیر زمین پانی کی تقشہ بندی اور موجودگی کی پیمائش ٹیوب ویلوں کے خاکہ جات کی تیاری کے لئے ضروری ہے ۔ ادارے نے زیریں سندھ طاس میں بھی 1226 سے زیادہ جگہوں پر زیر زمین پانی کی جانچ مکمل کر لی ہے ۔

بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح بلگند کرنے کے لئے لیکی بند یا ڈھانچہ جات متعارف کرائے ہیں ۔ سندھ میں سیم و تھور کی روک تھام کے لئے نکاسی آب کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس کی بدولت 2500 ایکڑ زمین قابل کاشت بنائی گئی ہے ۔ پی سی آر ڈبلیو آر نے آبپاشی کے لئے زیر زمین پانی پر انحصار کرنے والے کسانوں کی مشکلات کے حل کے لئے ملک میں 30 ہزار سے زائد رعایتی شمسی ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے سفارشات وفاقی حکومت کو پیش کی ہیں ۔

پی سی آر ڈبلیو آر نے دعویٰ کیا ہے کہ چاول کی کاشت کے لئے بہت زیادہ پانی خرچ ہوتا اور پانی کو بچانے کے لئے کونسل نے چاول کی کاشت بذریعہ بیڈو فرو طریقہ بنایا ہے اور اپنے تحقیقاتی مرکز سرگودھا میں چاول کی کاشت کے ل ئے اس طریقہ کو آزمایا اور پانی کی بچت کی ۔کونسل نے دعویٰ کیا ہے بیڈو فرو طریقہ سے قومی سطح پر 80 لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ کی بچت کی جا سکتی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے سٹاف کے لئے پانی کے معیار کی جانچ اور انتظام کے متعلق تربیت فراہم کرنے کے لئے اسلام آباد میں نیشنل کیپسٹی بلڈنگ انسٹیٹیوٹ برائے واٹر کوالٹی مینجمنٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے