بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کا جماعت اسلامی کے امیر کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ

Umer Jamshaid عمر جمشید بدھ 6 جنوری 2016 13:05

بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کا جماعت اسلامی کے امیر کی سزائے موت کو برقرار ..

ڈھاکہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 06 جنوری۔2015ء) بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم پر سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔جنگی جرائم کے خصوصی ٹرائبیونل نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے 72 سالہ سربراہ کو گذشتہ برس نسل کشی، قتل، تشدد اور ریپ کے 16 الزامات کے تحت یہ سزا سنائی تھی۔

بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں سینیئر ججوں کے پینل نے اس سزا کے خلاف مطیع نظامی کی اپیل مسترد کر دی۔مطیع الرحمان کی اپیل مسترد کیے جانے کے خلاف جماعتِ اسلامی نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ مطیع نظام سمیت اس کے اہم رہنماوٴں کو سزا سنائے جانے کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہیں۔

(جاری ہے)

مطیع الرحمان نظامی 1971 میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے ’البدر‘ نامی ملیشیا کے کمانڈر کے حیثیت میں آزدی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔ 2010 میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر اہم رہنماوٴں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی ہے جن میں سے عبدالقادر ملّا، قمر الزماں سمیت کئی افراد کو تختہ دار پر لٹکایا بھی جا چکا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹرائبیونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔دوسری جانب برسرِ اقتدار جماعت ’عوامی لیگ‘ کا کہنا ہے ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیے جنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے۔

1971 میں نو ماہ تک جاری رہنے والی پاکستان سے علیحدگی کی جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے گئے ہیں۔بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں تقریباً 30 لاکھ مارے گئے، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ تعداد حقیقت سے بہت زیادہ ہے اور نہ ہی ان اعداد و شمار کی کوئی تصدیق کی جا سکتی ہے۔