ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے ‘صوبوں اور وفاق میں اعتماد کا فقدان بڑھ رہا ہے‘ سندھ اور خیبرپختونخوا کے اختلافات وفاق سے کھل کر سامنے آچکے ہیں‘ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس حکومت نے 9 ماہ گزرنے کے باوجود نہیں بلایا‘ حکومت پارلیمان کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘ چند وزراء ایوان میں آتے ہیں وزیراعظم آتے ہی نہیں‘ پارلیمان کی مضبوطی سے ادارے مضبوط ہونگے‘ اگر ہر کام عدلیہ نے کرنا ہے تو اس ادارے کا کیا فائدہ‘ میمو سکینڈل پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لئے لایا گیا تھا‘ جب حکومت کمزور ہورہی تھی تو اس پارلیمان نے ہی حکومت کو بچایا

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا اسمبلی اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال

بدھ 6 جنوری 2016 13:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔06 جنوری۔2016ء) قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے دوسری جانب صوبوں اور وفاق میں اعتماد کا فقدان بڑھ رہا ہے‘ سندھ اور خیبرپختونخوا کے اختلافات وفاق کے ساتھ کھل کر سامنے آچکے ہیں‘ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس حکومت نے 9 ماہ گزرنے کے باوجود نہیں بلایا‘ حکومت پارلیمان کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘ چند وزراء ایوان میں آتے ہیں وزیراعظم آتے ہی نہیں‘ پارلیمان کی مضبوطی سے ادارے مضبوط ہونگے‘ اگر ہر کام عدلیہ نے کرنا ہے تو اس ادارے کا کیا فائدہ‘ میمو سکینڈل پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لئے لایا گیا تھا‘ جب حکومت کمزور ہورہی تھی تو اس پارلیمان نے ہی حکومت کو بچایا۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جن اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے‘ صوبوں اور وفاق میں بھی اعتماد کی فضا بھی خراب ہے‘ خیبرپختونخوا اور سندھ حکومت کے بہت سے مسائل وفاقی حکومت کے ساتھ ہیں دو صوبوں کے جو مسائل ہیں وہ سب کے سامنے ہیں 1973 کے آئین کے آرتیکل 153 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے صوبوں کے مسائل حل ہوتے ہیں اور وفاقی حکومت آئین سے انحراف کررہی ہے کونسل کا اجلاس کم سے کم سال میں دو مرتبہ ہونا چاہئے ستم ضریفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ آئین سے انحراف کیا جارہا ہے اور حکومت کو خوف ہے کہ صوبے آئینگے اور وہ اپنے مسائل اجاگر کریں گے کونسل مجلس شوریٰ کے فیصلوں کی پابند ہے اور نو ماہ گزرنے کے باوجود کونسل کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔

پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو دوسرے ادارے بھی مضبوط ہونگے وزیراعظم کا ایوان میں نہ آنا اور وزراء کا بڑی کم تعداد میں آنا اس ادارے کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے یہی ادارہ تمام اداروں کی ماں ہے اور آئین کی چھتری کے نیچے اگر یہ ادارہ آئین کی عمل داری قائم نہ کرسکے تو اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی تین سال موجودہ حکومت کو ہوچکے ہیں اور قانون سازی کا عمل سست ہے اور پچھلی حکومت نے 61 بل اڑھائی سال میں منظور کئے تھے اور موجودہ صرف نے صرف 37 بل منظور کئے ہیں ہمیں یہ کہتے ہیں کہ آپ بات ٹھیک کرتے ہیں مگر جن کی ذمہ داری ہے اور جن کی موجودگی ایوان میں نہیں ہوتی تو مسائل جنم لیتے ہیں اس ادارے کے علاوہ کہاں جائیں اگر عدالت کوئی فیصلہ کرے تو پھر اس ادارے کی کیا وقعت رہ جائے گی پانچ سال کی پچھلی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں ایوان میں حاضری کی پڑتال کریں پتہ چل جائے گا حکومت دو تہائی اکثریت میں ہے مگر اپوزیشن ایک تہائی ہوتے ہوئے بھی حکومتی ارکان سے زیادہ ہوتے ہیں حکومت کو اس ایوان کی طاقت کا احساس ہونا چاہئے۔

حکومت جب ختم ہونے جارہی تھی تو اس ایوان نے بچایا اس وقت وزراء بھی آتے تھے اور ارکان بھی اگر پارلیمان کام کرنا شروع کردے تو دفتروں کو لوگ بھول جائیں عوام کا اعتماد اس پارلیمانی پر اب نہیں رہا ہم نے اس جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں مشیر خارجہ کے بیان میں تضاد تھا جس کی وجہ سے میڈیا میں جگ ہنسائی ہوئی اور اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو پارلیمان کی وقعت ختم ہوجائے گی ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کونسل کا اجلاس نوے روز کے بعد آئین میں لکھا گیا ہے اور اس کا سیکرٹریٹ بھی ہونا چاہئے۔