بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان کو (ن) لیگ ایکشن پلان قرار دیدیا

پیر 11 جنوری 2016 14:00

بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان کو (ن) لیگ ایکشن پلان قرار دیدیا

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 جنوری۔2016ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو (ن) لیگ ایکشن پلان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے میں ناکام رہی ہے اور تجویز پیش کی ہے کہ ججوں کی تقرری کے عمل میں صرف جج ہی نہ ہوں بلکہ پارلیمنٹ، صدر اور وزیراعظم اور بار کونسل کو بھی شامل ہونے چاہئیں اور اس امید کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نوٹس لے گی اور توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے مناسب قانون سازی کرے گی۔

وہ پیر کو یہاں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی جن میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ججوں کی تقرری کے طریقہ کار، آئینی عدالت کا قیام، سوموٹو اختیارات کو ریگولیٹ کرنا، جلد اور سستا انصاف مہیا کرنا، توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے قانون سازی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے مقدس گائے کے کلچر کو ختم کرنا جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کو (ن) لیگ ایکشن پلان قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ججوں کی تقرری کے لئے صرف جج ہی نہ ہوں بلکہ پارلیمنٹ، صدر اور وزیراعظم اور بار کونسل بھی ججوں کی تقرری میں شامل ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ 2009ء میں عدلیہ کی بحالی ہوئی تھی جس سے یہ تاثر ہوا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے لیکن کچھ لوگوں کے مطابق ایسا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2010-13ء کے دوران جیوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ اور پانچ ہائی کورٹوں میں 126نامزدگیاں کیں جن میں سے پارلیمانی کمیٹی نے صرف آٹھ تقرریوں پر اتفاق نہیں کیا لیکن عدلیہ نے پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو رد کر دیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ صدر آصف علی زرداری نے ایک آئینی ریفرنس دائر کیا تھا جس میں جیوڈیشل کمیشن، پارلیمانی کمیٹی اور صدر کے اختیارات ججوں کی تقرری کے وقت ان کے کردار پر بات کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ صدر اور وزیراعظم کو محض پوسٹ آفس بنا دیا گیا ہے۔ صرف چیف جسٹس کی جانب سے نامزدگیاں اور جیوڈیشل کمیشن کی جانب سے اپنے قواعد و ضوابط بنانے اور اس کا رازداری سے کام کرنا جبکہ صدر اور وزیراعظم یا منتخب نمائندوں کا کوئی کردار نہ ہونا اور صرف جج ہی ججوں کی تقرری کریں تو اس سے ججوں کی قابلیت یا ان کی ساکھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن مختلف الخیال ذہنوں کا خیال بنچ کو رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اجتماعی غلطیاں کی ہیں۔ سیاستدانوں نے بھی غلطیاں کی ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے بھی غلطیاں کی ہیں اور عدلیہ نے بڑی غلطیاں کی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے نظریہ ضرورت کا ذکر اور یاد دلایا کہ ایک منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاڑکانہ کے وزیراعظم کے لئے ایک فیصلہ ہوتا ہے جبکہ لاہور کے وزیراعظم کے لئے دوسرا فیصلہ آتا ہے لیکن اب وقت ماضی کو کریدنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کا کردار واضح طور پر دیا گیا ہے کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے جبکہ عدلیہ قوانین کی تشریح کرتی ہے اور انتظامیہ ان پر عملدرآمد کرواتی ہے۔ اس لئے یہ بات حیران کن ہے کہ چیف جسٹس سے چیئرمین نیب کو منتخب کرنے کے طریقہ کار میں مشاورت کی جائے اور اس کے علاوہ فیڈرل سروس ٹربیونل کے اراکین اور چیئرمین کی تقرری کے لئے چیف جسٹس سے مشاورت کی جائے جبکہ منتخب نمائندوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین میں یہ اختیار نہیں دیا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالت کے قیام کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اس آئینی عدالت میں چاروں صوبوں کی برابر کی نمائندگی ہو اور یہ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے 2006ء میں دستخط کردہ میثاقِ جمہوریت کے ایجنڈے کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی امور کے لئے عدالت کا اختیار ایک بہت بڑا اختیار ہے جسے بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جمہوری طرزِ عمل متا ثر ہو سکتا ہے۔

سوموٹو کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ موازنہ کیا جائے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کتنے سوموٹو نوٹس لئے گئے تھے اور اس کے بعد کتنے لئے گئے؟ انہوں نے انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے پاکستان کے 2011ء کے دوسرے کے بعد رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سوموٹو نوٹس نے قانون کی حکمرانی کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے وکلاء سے کہا کہ وہ سوموٹو اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لئے غوروخوض کریں۔

انہوں نے جلد اور سستے انصاف کے لئے ایک غریب پرور عدالتی نظام کا مطالبہ کیا کہ اور اس بات کا عزم کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کو سستا اور جلد انصاف مہیا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ مشن ہے کہ نچلی سطح کی عدالتوں میں اصلاحات لائے گی، ان میں شفافیت لائے گی اور ان کی کارکردگی بہتر کرے گی۔ کرپشن کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے معاشرے کے کسی ایک طبقے کے خلاف استعمال کرنے سے خبردار کیا۔

انہوں نے کرپشن کے معاملات میں دوہرے معیار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک کرپشن سے نہیں لڑ سکتے جب تک کہ مقدس گائے کا نظریہ ختم نہ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طبقے کے لئے ایک قسم کے قوانین ہوں اور دوسرے طبقے کے لئے علیحدہ قوانین۔ بلاول بھٹو زرداری نے دانش کی کرپشن اور آئین کو بگاڑنے کی کرپشن کے مسئلے کے حل کے لئے بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے آئین کے بگاڑ کو برقرار رکھا اور فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے اور جمہوری ادارے ختم کرنے کی حمایت کی انہیں بھی اپنی ایمانداری پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو سراہا جس میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دی جائے۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نوٹس لے گی اور توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے مناسب قانون سازی کرے گی۔ انہوں نے حکومت کے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس کے شہیدوں نے قوم کو متحد کر دیا تھا چونکہ اس سے پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ طالبان سے کہہ رہے تھے کہ ان کے صوبے میں دہشتگردی کی کارروائیاں نہ کی جائیں کیونکہ وزیراعلیٰ اور طالبان کا نظریہ ایک ہے اور کچھ لوگ طالبان کو پشاور میں دفتر کھول کر دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان دراصل (ن) لیگ ایکشن پلان ہے کیونکہ حکومت (ن) لیگ کے ایجنڈے پر عمل پیراء ہے۔ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں سے دوبارہ کام کر رہی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں پارلیمنٹ میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ 61 عسکریت پسند تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں لیکن حکومت کو یہ پتہ نہیں کہ ان میں سے کتنی نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ کام کر رہی ہیں۔

مارچ 2013ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکو مت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحط کالعدم تنظیمیں نئے ناموں سے دوبارہ نہیں کام کر سکتیں لیکن موجودہ حکومت کو اس قانون کے متعلق علم ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ (ن) لیگ ایکشن پلان ہے کیونکہ پنجاب میں کسی بھی انتہاپسند تنظیم کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان میں کہا گیا تھا کہ فاٹا میں اصلاحات کی جائیں گی لیکن ابھی تک کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں اور وزیراعظم نے تو سابق صدر کی جانب سے اس خط کا جواب ہی نہیں دیا جس میں وزیراعظم سے کہا گیا تھا کہ سینیٹ کی جانب سے منظور کردہ بل کو فوراً منظور کیا جائے اور فاٹا کے عوام کو اپنے حقوق کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا حق دیا جائے۔

وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سرگرمیوں کو نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن بادلِ نخواستہ وزیراعظم کے کہنے پر وہ ایسا کر رہے ہیں۔ نیکٹا کے بورڈ آف گورنر کو قانون کے تحت تین ماہ میں ایک مرتبہ اجلاس ضرور کرنا چاہیے تھا لیکن پچھلے ایک سال سے ایک اجلاس بھی منعقد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد مغرب نے عسکریت پسند تنظیموں سے لاتعلقی کر لی لیکن ہم نے انہیں اپنا اثاثہ سمجھ کر اپنا لیا۔

اس کے بعد ہم نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح کر لی تاکہ کچھ عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کی جا سکے۔ حال ہی میں وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ٹاپی کی گیس پائپ لائن کی حفاظت کے لئے حکومت افغان طالبان سے بات کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے پوچھا کہ کیا یہ ریاست کی پالیسی ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی پچھلی پالیسی کو بدلا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی بقاء جمہوریت میں ہے اور ہر فرد اور ادارے کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے عوام کا مزاج جمہوری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈکٹیٹرشپ ملک میں اپنی جڑیں نہیں بنا سکی۔ انہوں نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، وکلاء، میڈیا اور جمہوریت پسند عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب کے آخر میں اپنی والدہ کی تقریر کی ایک تقریر سے اقتباس پیش کیا جس میں شہید بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ "میں اور پاکستان پیپلزپارٹی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عظمت ہماری دسترس میں ہے اور یہ خواب بھی ہماری دسترس میں ہے کہ ہم عظمت کی بلندیوں پر پہنچیں گے اور یہ خواب کی آبیاری آزادی، قانون، عزت اوروقار سے ہو سکتی ہے۔