وسطی ایشیائی مسلمان ملک کی شعائر اسلام کے خلاف جنگ!

Fahad Shabbir فہد شبیر منگل 12 جنوری 2016 22:35

وسطی ایشیائی مسلمان ملک کی شعائر اسلام کے خلاف جنگ!

دوشنبے(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12جنوری۔2016ء)دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں بعض نام نہاد سیکولر حکومتیں شعائر اسلام کو بھی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ شعائر اسلام کے خلاف جنگ میں وسطی ایشیا کے ایک اہم مسلمان ملک تاجکستان کی حکومت بھی سر فہرست ہے جہاں حکومت نے داڑھی، حج اور خواتین کے حجاب کے خلاف اعلانیہ اور غیراعلانیہ جنگ برپا کر رکھی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے مسلمان اکثریتی ریاست تاجکستان میں شعائر اسلام کے خلاف جاری کارروائیوں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ تاجک پولیس نوجوانوں کو داڑھی رکھنے سے سختی سے روک رہی ہے۔ حال ہی میں پولیس نے 23 سالہ عمر بوبوگونوف نامی ایک نوجوان کو محض اس لیے اذیتیں دے کر قتل کر دیا کہ اس نے چہرے پر داڑھی سجا رکھی تھی۔

(جاری ہے)

اس سے قبل ایک دوسرے تاجک شہری رستم گولوف کو بھی داڑھی رکھنے کی پاداش میں حراست میں لیا گیا اور زبردستی اس کی داڑھی منڈوا دی گئی تھی۔

تاجک حکومت کی مذہبی قدغنیں صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ ملک کی 10 فی صد نمائندہ مسیحی برادری بھی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کے نشانے پرہے۔ پچھلے تین سال سے عیسائیوں کو کرسمس کی تقریبات منعقد کرنے اور دیگر فرائض کی انجام دہی سے سختی سے روکا جا رہا ہے۔ عرب آن لائن روزنامہ ’’المختصر‘‘ کے مطابق دوشنبہ حکومت نہ صرف نوجوانوں کو داڑھی رکھنے سے روک رہی ہے بلکہ خواتین کو حجاب کرنے، حج پر جانے اور بچوں کے عربی نام رکھنے پربھی قدغنیں عاید کی جا رہی ہیں۔

اگرچہ حکومت نے میڈیا میں آنے والی ان اطلاعات کی بہ ظاہر تردید کی ہے مگر عملا تاجک پولیس داڑھی والے ہرشہری کو شبے کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ محض داڑھی رکھنے کی پاداش میں کسی بھی وقت کسی شخص کو حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ تاجکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے جس کی قیادت سنہ 1992ء کے بعد سے امام علی رحمان کے ہاتھ میں ہے۔ حال ہی میں تاجک پارلیمنٹ نے انہیں’’قائد الامۃ‘‘ کا خطاب دینے کے ساتھ تاحیات ملک کا سربراہ قرار دیا تھا۔ آٹھ ملین آبادی والے اس ملک میں اپوزیشن کو دبانے پر بہت زور دیا جاتا ہے مگر شہریوں کی سماجی بہبود اور معاشی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا سکی ہے۔