سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے مزدور کی کم از کم تنخواہ ترمیمی بل2015 اورگھروں میں کام کرنے والوں کو ملازمین کے حقوق کے بل 2103کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی

خیبر پختونخوا کے سکولوں میں گھوسٹ بھرتیوں کا انکشاف، ریکارڈ جلا دیا گیا، دو ماہ میں تفتیش مکمل کر کے مقدمہ احتساب عدالت میں بھجوا دینگے ،ڈی جی نیب کی بریفنگ

بدھ 13 جنوری 2016 20:21

سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے مزدور کی کم از کم تنخواہ ترمیمی بل2015 اورگھروں ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 جنوری۔2016ء) سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے مزدور کی کم از کم تنخواہ ترمیم بل2015 اور سینیٹر عثمان سیف اﷲ کے گھروں میں کام کرنے والوں کو ملازمین کے حقوق کے بل 2103کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دی۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر باز محمد خان کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔

جس میں سینیٹر عثمان سیف اﷲ خان کی طرف سے گھروں میں کام کرنے والوں کو ملازم کے حقوق کا بل2013قومی اسمبلی سے منظور شدہ عام مزدوروں کی کم از کم تنخواہ ترمیمی بل2015اور ورکرز ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخواہ کے کنٹریکٹ ملازمین کی قانونی حیثیت کے بارے میں سینیٹ چیئرمین کی طرف سے کمیٹی کو بھجوائے گئے معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی۔

(جاری ہے)

کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز رحمان ملک،فتح محمد حسنی، اقبال ظفر جھگڑا ،سیف اﷲ خان بنگش ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور عثمان سیف اﷲ خان کے علاوہ وفاقی وزیر پیر صدر الدین شاہ راشدی ، وفاقی سیکرٹری وزارت خضر حیات خان، خیبر پختونخوا کے سیکرٹری لیبر عالمگیر شاہ،ڈپٹی سیکرٹری انور خان،ڈی جی ڈائریکٹر جنرل نیب خیبر پختونخواہ شہزا دسلیم نے شرکت کی ۔

اجلاس میں سیکرٹری وزارت خضر حیات سینیٹر رحمان ملک ،سینیٹر فتح حسنی کی طرف سے خیبر پختونخواہ کی بجائے کے پی کے کہنے پر چیئرمین کمیٹی باز محمد خان نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے نام خیبر پختونخواہ ہے پورا نام لیا جائے ۔کمیٹی اجلاس میں ورکرز ویلفیئر بورڈ سے خیبر پختونخواہ میں غیر قانونی بھرتی کئے گئے 3ہزار ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی نیب اور محکمانہ صوبائی انکوائری کی رپورٹ آئندہ اجلاس میں طلب کی گئی اور سفارش کی گئی کہ تعلیم ،تجربہ اور عمر کے معیار پر پورے اترنے والے ملازمین کے معاملے کو ترجیحی بنیاد پر حل اور زائد المیعاد ،عمر،نا تجربہ کار اور جعلی ڈگری والے ملازمین کا معاملہ الگ رکھ دیا جائے۔

کمیٹی چیئرمین نے ہدایت دی کہ اعلی اختیارات کے حامل سرکاری افسران کے خلاف کاروائی کی جائے اور کہا کہ بھرتی کرنے کیلئے دس افسران پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ۔نو فسران بھرتیوں کے حکم ناموں پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں۔گورننگ باڈی بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ذمہ دار تھے۔ڈائریکٹر جنرل نیب خیبر پختونخواہ شہزا دسلیم نے نیب کی تحقیقات کے حوالے سے آگاہ کیا کہ کل 3220کنٹریکٹ ملازمین بھرتی کئے گئے ۔

کچھ افراد کو ایک آسامی پر دو دفعہ بھرتی کیا گیا ۔18سکولوں کو شام کی شفٹ میں تبدیل کر کے صبح او رشام میں ایک ہی آفیسر کو رکھا گیا ۔صوبے کے کل اضلاع میں بھرتیاں نہیں کی گئیں خریداری کے بجٹ میں سے غیر قانونی طو ر پر کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں میں استعمال کیا گیا۔ مزید 16سکول کھولے گئے اسلام آباد سے منظوری نہیں لی گئی ۔ ملازمین کو بغیراخباری اشتہاری اور ٹیسٹ انٹرویو بھرتی کیا گیا ۔

ملازمین کا ریکارڈ جلا دیا گیا ہے اور تفتیش پر انکشاف ہوا کہ گھوسٹ ملازمین بھی بھرتی کئے گئے۔صوبے کے تمام اضلاع میں نیب کی ٹیموں نے سکولوں کا دورہ کیا اور ملازمین کی خود نشاندہی کی۔ بھرتیاں گورننگ باڈی اور بورڈآف ڈائریکٹرز کی اجازت کے بغیر کی گئیں۔3000ملازمین میں سے517کی دوہری بھرتی کی گئی297کی تعلیم کم ہے 42کی عمر زائد ہے ۔اضافی سکولوں کا بجٹ بھی موجود نہ تھا۔

دو ماہ میں تفتیش مکمل کر کے مقدمہ احتساب عدالت میں بھجوا دینگے ۔سینیٹر رحمان ملک نے سوال اٹھایا کہ بورڈ آف گورنر اور گورننگ باڈی کی اجازت کے بغیر بھرتیاں کی گئی یہ دونوں ذمہ دار ادارے سوئے ہوئے تھے۔سینیٹر سردار فتح محمد حسنی نے کہا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو بے روزگار نہ کیا جائے3000خاندان پریشانی میں مبتلا ہونگے ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہئے۔

معیار پر پورا اترنے والے ملازمین کو مستقل کر دیا جائے ۔سینیٹر جنرل (ر) عبدل القیوم نے کہا کہ نیب اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے ایگزیکٹو اتھارٹی کی بھی ذمہ داری تھی احتساب کیوں نہیں کیا گیا۔جعلی ڈگری رکھنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کر کے مثال بنائی جائے۔سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ صوبے کے26اضلاع میں سے بھرتی نہیں کی گئی تنخواہ کا بجٹ نہیں تھا 5سال بغیر منظوری کے تنخواہیں دی جاتی رہیں کاروائی ہونی چاہئے۔

بورڈ آف گورنر کو نوٹس لینا چاہئے تھا۔سیکرٹری وزارت خضر حیات خان نے آگاہ کیا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ میں پانچ سے زائد ملازمین والے کارخانے دار اورفیکٹری مالکان سے ایف بی آر وصولی کر کے وزارت خزانہ کو جمع کراتا ہے جو صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔گورننگ باڈی میں وفاقی سیکرٹری وزارت خزانہ کے دو،صوبائی سیکرٹری،مزدور نمائندے اور کارخانے دار شامل ہیں۔

گورننگ باڈی کا معاملہ عدالت میں ہے ۔سندھ نے ای او بی آئی بل پاس کر لیا ہے الگ ورکرز ویلفیئر فنڈ بھی قائم کر لیا ہے سیکرٹری خیبر پختونخواہ عالمگیر شاہ نے آگاہ کیا کہ معاملے پر دو کمیٹیاں قائم ہوئی ہیں ۔30جون 2016تک کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت میں توسیع دے دی گئی ہے جس میں شرط ہے کہ جعلی ڈگری والے کو نکا ل دیں گے۔رپورٹ ایک ماہ میں پیش کی جائیگی۔

ڈپٹی سیکرٹری انور خان نے کہا کہ طلباء اور اساتذہ کے مستقبل کو مدنظر رکھا جائے گا زائد عمر ملازمین کو پانچ سال عمر کی حد میں نرمی کی جا سکتی ہے۔سیکرٹری وزارت نے اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے مشکلات کا ذکر کیا تو چیئرمین کمیٹی بازمحمد خان نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم آئین ترمیم ہے اس پر بات نہیں کی جانی چاہئے۔فتح حسنی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ ترمیم کے ذریعے آئین اصل شکل میں بحال کیا اور قوم قائدین کو یاد رکھے گی۔

سینیٹر عبد القیوم نے کہاکہ فیڈریشن سے کنفیڈریشن میں جانے سے ملک کا نقصان ہو سکتا ہے ۔آئین میں ترمیم ہوسکتی ہے تو اٹھارویں ترمیم پر دوبارہ غور بھی کیا جا سکتا ہے۔سینیٹر رحمان ملک نے سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات اور شکایات کا معاملہ اٹھایا ا ور کہا کہ بیور و آف امیگریشن اوور سیز فاؤنڈیشن پروٹیکٹرآف امیگریشن کی کارکردگی بارے اجلاس بھی منعقد کیا جانا چاہئے۔

سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعدا دمیں ا ضافہ ہو اہے اس سال9لاکھ پاکستانی باہر گئے اگلے سال تعداد دس لاکھ سے زائد ہو گی۔سمندر پار پاکستانیوں کی بجھوائی گئی رقوم بھی صرف ڈالر تک پہنچ چکی ہیں ا و ربھی بڑھنے کی امید ہے۔سینیٹر عبد القیوم نے کہا کہ تربیت یافتہ پاکستانیوں کو باہر بھجوایا جانا چاہئے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ورکر ز وریلفیئر بورڈ میں غیر قانونی بھرتیوں بے ضابطگیوں کی رپورٹ قائمہ کمیٹی میں بھی منگوائی جائے گی۔کمیٹی نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ مزدور کی کم از کم تنخواہ ترمیم بل2015 اور سینیٹر عثمان سیف اﷲ کے گھروں میں کام کرنے والوں کو ملازمین کے حقوق کے بل 2103کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دی۔

متعلقہ عنوان :