ججز سلطان کے قاضی نہیں ،قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرنا ہوں گے‘ قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان

اگر جج رشوت نہیں لے گا تو دینے والا بھی نہیں ہو گا،عدلیہ کا وقار ہو گا تو بار کا وقار ہو گا،ہمیں مل کر ادارے کی ساکھ بچانی ہے‘ سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر

ہفتہ 16 جنوری 2016 22:43

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 جنوری۔2016ء ) قائمقام چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ججز سلطان کے قاضی نہیں ،ججز کو قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرنا ہوں گے،ازخود نوٹسز کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے رولز میں مناسب ترمیم کر کے ایسا فورم قائم ہونا چاہیے جو تجویز کرے کس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جائے، ایسا نہیں کہ رات کو خواب آئے اور صبح ازخود نوٹس لے لیا جائے،نظام عدل کو بچانے کیلئے انصاف کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا،قانون کی حکمرانی قائم کرنے والی قومیں ہی ترقی یافتہ ہیں، لوگوں کا عدلیہ پر اعتبار ہو گا تو فیصلے مانے جائیں گے،سب سے بڑا چیلنج اپنے ادارے کو بہتر بنانا ہے،اسے قائم دائم رکھنے کیلئے ہر قدم اٹھائیں گے،جو لوگ ادارے کی تذلیل پر اترے ہوئے ہیں ان کے خلاف ایکشن لینا ہو گا،تنبیہکر رہا ہوں کہ سول جج کی توہین پوری عدلیہ کی توہین سمجھی جائے گی ،عدلیہ کو دبا کر ریلیف لینے والے وکلاء قابل قبول نہیں، جب تک گھر سے احتساب شروع نہیں کرتے عدلیہ قابل اعتبار ادارہ نہیں بن سکتا،ملک اور قوم کو متوازن عدلیہ دیں گے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام نظام عدل اور لیگل ایتھکس کے مو ضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اعجازالاحسن ،چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ محمد نور مسکانزئی،لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ ،سپریم کورٹ کے صدر سید علی ظفر، سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔

قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں عوام نے طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا،افسوس،ہم اس طاقت کو سنبھال نہیں سکے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا وقار بہت معتبر ہے،اس اعتبار اور اعتماد کو بحال کرنا ہے،انصاف کے اداروں میں ہڑتالیں ہوں گی تو انصاف خاک ہو گا،حالات کتنے ہی نامساعد ہوں ،انصاف کی فراہمی جاری رکھیں گے۔

بار ایسوسی ایشنز سن لیں ججز کی عزت بحال رکھنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر عوام کی بے اعتباری کی وجہ خود ججز ہیں۔ ججز کو منصفانہ فیصلے دے کر عوام میں اپنا اعتبار بحال کرنا ہوگا۔عوام کے بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ عدلیہ کا اولین فرض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج اپنے ادارے کو بہتر بنانا ہے،اسے قائم دائم رکھنے کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے،جو لوگ ادارے کی تذلیل پر اترے ہوئے ہیں ان کے خلاف ایکشن لینا ہو گا، جب تک گھر سے احتساب شروع نہیں کرتے عدلیہ قابل اعتبار ادارہ نہیں بن سکتا۔

بارز ایسوسی ایشنز ایسے وکلاء کا احتساب کریں، وہ لوگ جو عدلیہ کی تذلیل پر اترتے ہیں وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں، ادارے کو قائم دائم رکھنے کیلئے ہر اقدام اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد پاکستان کو ایک متوازن عدلیہ دیں گے، ہم سلطان کے قاضی نہیں ہیں، قانون ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی سے فیصلے کریں، ہم نئی نسل کو اچھا دے کر جائیں گے یا پھر اچھا چھوڑ کر جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نااہل، جانبدار اور کرپٹ عدلیہ کا جج نہیں بن سکتا، دنیا میں قانون کی بالادستی پر قائم رہنے والی قومیں اور ادارے ہی ترقی کرتے ہیں۔ عدالتی نظام میں سب سے اہم عہدہ جج ہے، اس کی تقرری کا طریق کار شفاف ہونا چاہیے، سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک ججوں کی تقرری کا معیار سخت رکھنا پڑے گا تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھائے، سپریم کورٹ کے جج اور سول جج میں کوئی فرق نہیں بلکہ نچلی سطح پر ججوں پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔

عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، جو جج بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے، ازخود نوٹسز کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے رولز میں مناسب ترمیم کر کے ایسا فورم قائم ہونا چاہیے جو تجویز کرے کس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جائے، ایسا نہیں کہ رات کو خواب آئے اور صبح ازخود نوٹس لے لیا جائے۔

آئین کے تحت بنیادقی حقوق واضح ہیں عدلیہ ان پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہے عدلیہ کا یہ عمل کسی پر کوئی احسان نہیں ہے۔ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت دائرہونے والی رٹ پٹیشنزکو سول مقدمات کی طرح نہ پھیلائیں۔عدالتی نظام کی بہتر ی کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ہم نے قسم کھائی ہے کہ کڑے حالات،وکلاء کی ہڑتالوں،،گالیوں اور ججز سے نازیبا رویے کے باوجود ہر حال میں انصاف کرنا ہے۔

قانون کی پاسداری کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ قانون کو پامال کرنے اور حکمرانوں کی خواہشات پر عمل کرنے والی قومیں ہی پستی میں گرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 18لاکھ کے لگ بھگ جبکہ عدلیہ میں چار ہزار ججز موجود ہیں۔ججز اور زیر التواء مقدمات کی تعداد غیر متوازن ہونے سے عدلیہ کو دباؤ کا سامنا ہے۔

بروقت مقدمات کی سماعت نہ ہو نے سے وکلاء ہڑتالوں اور سائلین احتجاج پر مجبور ہیں۔سول ججز پر وکلاء،معاشرے،سپریم کورٹ اور قومی عدالتی پالیسی کا دباؤ ہے۔زیر التواء مقدمات تعداد میں زیادہ ہونے کے باعث ٹی ٹونٹی کی طرح نمٹائے جا رہے ہیں۔نوجوان وکلاء کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے مگر سینئر کے پاس انہیں سکھانے کا وقت نہیں جس کی وجہ سے نوجوان وکلاء عدالتی آداب سے واقف نہیں اگر صورتحال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو تباہی یقینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وکالت اور طب جیسے مقدس شعبے بھی مادہ پرستی کا شکار ہو چکے ہیں۔پیسے اور عزت میں سے ایک ہی چیز کا انتخاب ہو سکتا ہے،سوچنے کی بات یہ ہے کہ عزت ہو گی تو پیسہ بھی حاصل ہو جا تا ہے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اعجازالاحسن نے کہا کہ عدلیہ عام آدمی کی امید ہے۔سائلین کے اعتماد سے ہی عدلیہ مضبوط ہوتی ہے۔عوام کا اعتماد اس وقت بحال ہوتا ہے جب آئین اور قانون کے تحت فیصلے کئے جائیں۔

عدالتی نظام میں بار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کہا کہ بلوچستان کے حالات پسماندہ ہیں۔بلوچستان ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں اساتذہ کے احتجاج پر نہیں بلکہ ان کی ہڑتال پر پابندی عائد کی ہے۔اس پابندی کوبلوچستان کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔سرکاری سکولوں میں چھ ماہ کی سرکاری چھٹیاں تسلیم شدہ ہیں،تین ماہ بچے تعلیمی داروں میں نہیں آتے جبکہ بچ جانے واکے تین ماہ میں اساتذہ ہڑتال پر ہوتے ہیں۔

اکر کسی کو بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر اعتراض ہے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داغدار شہرت رکھنے والے ججز کو ان کے عہدوں پر کسی صورت نہیں رہنا چاہیے ۔ججز کی تعیناتی،ٹرانسفر پالیسی اور ترقیاں میرٹ پر ہونی چاہئیں۔عدلیہ میں احتساب کا عمل ہر صور ہونا چاہیے ۔

کالونیل سٹائل پر عدلیہ کو نہیں چلایا جا سکتا۔زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔صبح ایک وکیل اٹھ کر جج کو جوتا مارتا ہے اور شام کو بار کا صدر معافی نامہ لے کر آ جا تا ہے۔وکالت کے مقدس پیشے سے کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا۔سپریم کورٹ بار کے صدرسید علی ظفر نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔

عدالتی نظام اور فراہمی انصاف میں کون کون سے رکاوٹیں موجود ہیں تمام فریقین کو مل کر اس کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔سپریم کورٹ بار نے اس اہم موضوع پر بات چیت کے لئے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے تاکہ عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ وکلاء اور ججز اپنے درمیان فاصلوں کو کم کر کے تمام مسئلوں کا بہتر حل نکال سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صد ر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سکیورٹی کے نام پر بنیادی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔

عدلیہ نے ایک فیصلے کے ذریعے اساتذہ کے احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی ہے،کیا آئین اساتذہ کو احتجاج کا حق نہیں دیتا،کیا تنخواہیں میں اضافے کے لئے اساتذہ کااحتجاج کرنا غیر آئینی اقدام ہے۔عدلیہ نے ایک فیصلے کے ذریعے آزادی اظہار رائے پر پابندی عائد کر رکھی ۔آئین کی کس شق میں کہا گیا ہے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں بولنا،غیر قانونی فیصلوں کے خلاف ہر صورت آواز اٹھنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اگر جج رشوت نہیں لے گا تو دینے والا بھی نہیں ہو گا۔عدلیہ کا وقار ہو گا تو بار کا وقار ہو گا۔ہمیں مل کر ادارے کی ساکھ بچانی ہے۔

متعلقہ عنوان :