مغربی ممالک نے خلیجی ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ،سعودی عرب ایران کیساتھ مذاکرات کرے ‘ سردار آصف احمد علی

جمعرات 21 جنوری 2016 16:39

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21 جنوری۔2016ء) سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک میں شیعہ سنی اختلاف بہت زیادہ ہیں، مغربی ممالک نے خلیجی ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا اور اختلافات کو بھڑاوا دیا،سعودی عرب کو چاہئے کہ دشمنی پیدا کرنے کی بجائے ایرن کے ساتھ مذاکرات کرے ،وزیراعظم نواز شریف نے مصالحت کی کوشش کر کے اسلامی فریضہ سرانجام دیا ہے تاہم پاکستان کو کسی اور جنگ سے دور رہنا چاہئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ”عرب ایران کشیدگی “کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی ، جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، ڈاکٹر محمد اعجاز بٹ اور حفیظ اللہ خاں نیازی نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے مصالحت کی کوشش کر کے اسلامی فریضہ سرانجام دیا ہے، خلیجی ممالک میں شیعہ سنی اختلاف بہت زیادہ ہیں۔ مغربی ممالک نے خلیجی ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا اور اختلافات کو بھڑاوا دیا۔ سعودی عرب کو چاہئے کہ دشمنی پیدا کرنے کی بجائے ایرن کے ساتھ مذاکرات کرے یا کوئی سفارت کاری کے دوسرے ذرائع استعمال کر کے ایران کے ساتھ معاملات درست کرے۔

کیا ایران سعودیہ کا داعش یا اسرائیل سے بھی بڑا دشمن ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کو کسی اور جنگ سے دور رہنا چاہئے۔حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور ایران تنازع کے کئی پہلو ہیں۔ یہ بیک وقت تاریخی، معاشی لسّانی اور ثقافتی یعنی عربی عجمی تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ اس کی بنیاد شیعہ سُنی مسالک کی تفریق پر ہے جسے دونوں ممالک ہوا تو دیتے ہیں لیکن اعتراف نہیں کرتے۔

حال ہی میں وزیراعظم نوازشریف نے جب ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں نے یہی کہا کہ ہماری آپس میں کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو پھر یہ تماشا کیا ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ دونوں ملک مسالک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دوست اس پر فکر مند ہیں اور دشمن خوش کہ یہ آپس میں لڑتے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جو دشمن چاہتے ہیں یعنی امت مسلمہ کمزور تر ہوتی چلی جائے۔

سینئر صحافی قیوم نظامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران سعودی مسئلہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان ایسی صورتحال میں سائیڈ لینے کا متعمل ہی نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر ایران سعودیہ جنگ میں جاتے ہیں تو پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ کیونکہ ان ممالک کے ہمارے ہاں بہت رابطے ہیں۔ پاکستان میں بہت زیادہ زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اورجنگ کی صورت میں ہم معاشی مسائل کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کو ایران اور سعودیہ سے مساوی تعلقات رکھنے چاہئیں۔ پاکستان کو سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت ایک کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کرے تا کہ اس صورتحال سے نمٹا جا سکے اور موجودہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان قوم نہیں امت ہیں۔

دنیا میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ دنیا کے وسائل کا 70 فیصد مسلمانوں کے پاس ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ہی قتل کیا جا رہا ہے۔ تمام سازشوں کے باوجود پاکستان میں شیعہ سنی فسادات نچلی سطح تک ممکن نہ ہو سکے اگر شیعہ سنی فسادات کی سازش کامیاب ہو گئی تو پاکستان کے لئے بہت برا ہو گا۔ پاکستان کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہئے۔ قرآن کریم بھی یہی درس دیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اعجاز بٹ نے سیمینار سے کہا کہ دنیا بھر میں ممالک کی خارجہ پارلیسیاں معاشی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں۔ امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا ایکسپورٹر ہے۔ دنیا بھر میں اپنے اسلحہ بیچنے کیلئے جنگیں کروانے کا باعث بنتا ہے۔ دراصل اب یہ امریکہ اور چائنہ کی خارجہ پالیسیوں کا ٹکراؤ ہے۔ امریکہ اب خلیجی ممالک میں شیعہ سنی اختلافات کو بڑھا کر جنگی صورتحال پیدا کر رہا ہے تا کہ اپنا اسلحہ بیچ سکے۔

جبکہ چائنہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں امن برقرار رہے تا کہ اس کی مصنوعات کی فروخت ترقی پا سکے۔ خطے میں امریکی اثر رسوخ کو کم کر کے ایشین بلاک بنایا جائے جو کہ ایشین مفادات کا تحفظ کر سکے۔ کالم نگار حفیظ اللہ خاں نیازی نے سیمینار سے اپنے خطاب میں عرب ایران تناؤ کی وجہ سے ن دونوں ملکوں میں اقلیتی عوام بہت مسائل کا شکار ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے مصالحتی کوششوں کی وجہ سے مقامی طور پر اس تناؤ میں کمی آئی ہے۔ آج کی یہ لڑائی شیعہ سنی کی نہیں بلکہ یہ تیل کی لڑائی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کے وسائل کو جنگ کا حصہ بنایا جائے لیکن روس اور چائنہ اب امریکہ کوپہلے کی طرح اس خطے میں نہیں کھیلنے دے گا۔