سینیٹر حمزہ کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی سینیٹ پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس

او جی ڈی سی ایل کوٹہ میں سے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں اور افراد کے بچوں کا کوٹہ بھی رکھا جانا چاہئے،ایل پی جی کا نیا پلانٹ لگایا جا رہا ہے جس میں مقامی شہریوں کو ترجیح دی جائے گی، سینیٹر نثار محمد

منگل 26 جنوری 2016 19:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 جنوری۔2016ء) قائمہ کمیٹی سینیٹ پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس سینیٹر حمزہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ایل پی جی رائیلٹی سینیٹر محسن عزیز کی طرف سے پی ایس او بورڈ کے ایوان میں پوچھے گئے سوال ضلع کرک میں مول کمپنی کے زخمی مزدورں ،او جی ڈی سی ایل ا ور پیداواری علاقوں کی زمین کے مالکان کے درمیان معاہدے، او جی ڈی سی ایل میں کرک اور کوہاٹ اضلاع کے مقامی افراد شہریوں کی ملازمت میں کوٹے ،او جی ڈی سی ایل کی کرک اور کوہاٹ اضلاع میں فلاحی منصبوں اور سینیٹر باز محمد خان کی طرف سے ضلع بنوں کی 12یونین کونسلوں میں گیس کی فراہمی کے معاملات زیر بحث آئے۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر نثار محمد نے کمیٹی کے انتہائی اہم اجلاس میں وفاقی وزیر پٹرولیم،سیکرٹری پٹرولیم کی عدم شرکت پر شدید احتجاج کیا ور کہا کہ ایکنک اور عدالت کے فیصلے کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کا مطالبہ زیربحث ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر اور وفاقی سیکرٹری دونوں کی عدم شرکت کمیٹی کو اہمیت نہ دینے کی واضح مثال ہے ۔کمیٹی اجلاس میں عوامی نوعیت کے مسائل اور قومی معاملات زیر بحث آتے ہیں۔

ایک ایک اجلاس پر قومی خزانے کے لاکھوں اخراجات ہوتے ہیں جب وزیر اور سیکرٹری موجود نہیں تو کمیٹی کیا فیصلے کرے گی۔وفاقی وزیر کی طرف سے اجلاس 3,4گھنٹے کے بعد منعقد کرنے کا کہنا رولز کی خلاف ورزی ہے ۔سینیٹر یوسف بادینی نے بھی سینیٹر نثارمحمد کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری نے کمیٹی کو آگاہ نہیں کیا ۔کمیٹی اجلاس کا شیڈول پہلے جاری کیا جاتا ہے طریقہ کار درست نہیں وزیر اور سیکرٹری سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کر رہے۔

سینیٹر نثار محمدنے تجویز کیا کہ موجود کوٹہ میں سے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں اور افراد کے بچوں کا کوٹہ بھی رکھا جانا چاہئے۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا کے تین اضلاع کوہاٹ ،ہنگو اورکرک میں کمپنیوں کے529ملازمین میں سے 364ورک چارج مقامی افراد ہیں۔ملک بھر میں 4000کے قریب کے عارضی ملاازمین کو مستقل کرنے کاشیڈول بنایا جا رہا ہے ۔

ایل پی جی کا نیا پلانٹ لگایا جا رہا ہے جس میں مقامی شہریوں کو ترجیح دی جائے گی۔300طلباء کو ایک سال کیلئے 25ہزار ماہانہ پر انٹرن شپ دی جا رہی ہے۔جن میں سے ہرصوبے میں سے بمعہ گلگت بلتستان فاٹا سے 60,60قابل طلباء شامل کیئے جائیں گے اور کہا کہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں سے بھی یتیم بچوں کو ملازمتون میں ترجیح دی جائے گی۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ پیداواری علاقوں کے 5کلومیٹر کے گردونواح میں وزیر اعظم ڈائریکٹوکے تحت گیس فراہمی میں علاقے اور آبادی دونوں کو شامل کیا جائے۔

اور پیداواری علاقوں میں سے صرف چوکیدار چپڑاسی نہیں بلکہ آفیسرز بھی بھرتی کئے جائیں ۔پیداواری کمپنیاں صرف منافع پر توجہ نہ رکھیں بلکہ آئینی ذمہ داری پوری کر کے علاقے کی ترقی پر بھی توجہ رکھیں ۔کرک ،گھرگری میں سالانہ تین سے چار ارب روپے گیس چوری کے حوالے سے سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ لوگوں کو بنیادی حق پہلے فراہم کیا جائے اس کے بعد کاروائی کی جانی چاہئے۔

سوئی نادرن گیس کے حکام نے آگاہ کیا کہ ایف آئی اے کو شامل کرنے کے بعد کمپنی کی ریکوری میں کمی آئی ہے ۔سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا گیا کہ وزیر اعظم نے نئی 60گیس سکیموں کی منظوری دی ہے۔جس پر سینیٹر باز محمد نے کہا کہ 2012میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بنوں کی 12یونین کونسلوں میں گیس کی فراہمی کی منظوری دی تھی آج تک عمل نہیں ہوا نہ سروے اور نہ ہی تخمینے کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

سینیٹر نثا رمحمد نے کہا کہ اگلے اجلاس میں وزیر اعظم کی منظور کردہ 60نئی گیس سکیموں،تخمینے اور وزیر اعظم نے کس مد میں سے فنڈز جاری کئے تفصیلات سے آگا ہ کیا جائے۔سینیٹر اعظم خان موسی خیل نے کرک میں مول کمپنی کے ٹھیکیدار ملازمین کی اموات کا معاملہ اٹھایا جس پر آگا ہ کیا گیا کہ کمپنی نے معاہدہ نہ ہونے کے باوجودٹھیکیدار ملازمین کے علاج پر63لاکھ روپیہ خرچ کیا اور فوت ہونے والے افراد کو بھی مالی مدد دی گئی۔

گیس پیداواری علاقے میں زمین دار کے ساتھ معاہدے پر عمل نہ کرنے کے سینیٹر اعظم خان موسی کے جواب پر ایم ڈی او جی ڈی سی ایل زاہد میر نے کہا کہ معاہدے کا علم نہیں پیداوار میں سے حصہ نہیں دیا جاتا ۔معاہدہ دکھانے پر آگاہ کیا گیا کہ کمپنی نہیں کورڈینیٹر نے معاہد ہ کیا جس پر سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ اجلاس میں آنے سے قبل ایجنڈے کو بھی پڑھ کرآنا چاہئیے۔

ایم ڈی او جی ڈی سی ایل زاہد میرنے آگاہ کیا کہ فلاحی منصوبوں کیلئے305ملین رکھے گئے تھے او جی ڈی سی ایل منافع میں سے ایک فیصد سوشل ویلفیئر پر استعمال کرتا ہے۔2015-16میں سوا ارب خرچ کرینگے اور انکشاف کیا کہ سال 2014-15میں 8کروڑ روپے خرچ نہ کئے جا سکے،۔اور آگاہ کیا کہ آئی بی اے سکھر کراچی ،نمل،اور دوسری یونیورسٹیوں سے معاہدے کئے جا رہے ہیں سندھ بلوچستان سے ایک ہزار طلباء کو او جی ڈی سی ایل ٹیلنٹ سیکم کا کورس کروا کر چار سالہ ڈگری دی جائے گی۔

وزارت پٹرولیم کے حکام نے آگا ہ کیا کہ نئی سکمیوں پر وزیر اعظم نے پابندی لگائی ہوئی ہے اب 5ارب60کروڑ کی سکیموں کی سمری سی سی آئی کو بھجوا دی گئی ہے۔اور آّگاہ کیا کہ مولانا فضل الرحمان کی گیس ترقیاتی سکیم کی سمری بھی اس میں شامل ہے جس پر کمیٹی نے سفارش کی کہ سینیٹر باز محمد خان کی سکیم بھی اسی سمری کے ساتھ شامل کر لی جائے۔سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا کہ نوکریوں میں فاٹا کا کوٹہ بھی بڑھایا جائے جو پہلے ہی کم ہے اور نوکریاں بھی پوری نہیں ملیں۔

پی ایس او بورڈ کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ بورڈ بن چکا ہے اور پچھلے ماہ اجلاس بھی منعقد ہو گیا ہے ۔تاج آفریدی نے تجویز کیا کہ بورڈ میں فاٹا کی نمائندگی بھی دی جانی چاہئے۔کمیٹی نے کل 43آئل فیلڈزکی تفصیلات اگلے اجلاس میں طلب کر لیں۔صوبہ خیبر پختون خواکے گیس پیداواری اضلاع میں مقامی افراد کی بھرتیوں میں اضافے کی سفارش کی گئی۔اجلاس میں سینیٹرز نثار محمد،تاج محمد آفریدی،باز محمد خان،محمد یوسف بادینی،محمد طلحہ محمود،محمد اعظم خان موسی خیل کے علاوہ ڈی جی گیس قاضی محمد سلیم،ایڈیشنل سیکرٹری پٹرویم فرقان بہادر خان،عامر طفیل ایم ڈی ایس این جی پی ایل،زاہد میر ایم ڈی او جی ڈی سی ایل ،ایم ڈی مول علی کے علاوہ اعلی حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :