چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعدکالعدم تحریک طالبان پاکستان مزید گروپس میں تقسیم

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے طالبان گروپ کی داعش میں شمولیت سے بھی کالعدم تحریک طالبان کو دھچکالگا،فوجی آپریشنز نے کمر تورڈی ، چینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ

بدھ 27 جنوری 2016 21:46

چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعدکالعدم تحریک طالبان پاکستان مزید گروپس ..

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 جنوری۔2016ء) چارسدہ یونیورسٹی پر دہشتگرد حملے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستا ن مزید گروپس میں تقسیم ہوگئے ۔چینی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد ایک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر نے فوری طور پر ذمہ داری قبول کی جبکہ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان نے واقعہ میں کسی بھی طور پر ملوث ہونے کی تردید کردی ۔

حملے کے فوری بعد سخت گیر جنگجو عمر منصور کی یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے 4حملہ آوروں کے ساتھ ایک ویڈیومنظر عام پر آئی جس میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تا ہم اس کے چند ہی گھنٹوں بعد کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے کہا کہ وہ کسی بھی طور پر اس حملے میں ملوث نہیں ہیں اور ایسا کرنے والوں کوکالعدم تحریک طالبان کی عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا ۔

(جاری ہے)

محمد خراسانی کی جانب سے حملے میں ملوث نہ ہونے کے حوالے سے بیان کو پاکستان میں شکوک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں عمر منصور کی قیادت میں کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے متعدد حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی ۔2014میں آرمی پبلک سکول اور گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں پاکستان ایئر فورس کے ایک بیس پر حملہ عمر منصور کی جانب سے ہی کروایا گیا تھا ،حملوں کے بعد کالعدم تحریک طالبان نے ذمہ داری بھی قبول کی تھی ۔

کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان جو کہ عموماً ہر حملے کے بعد ذمہ داری قبول کرتے ہیں انہوں نے حیران کن طور پر باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان مزید گروہوں تقسیم ہو چکی ہے ۔یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کالعدم تحریک طالبان کے سخت گیر جنگجو کی جانب سے کئے جانے والے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان کی جانب سے کی گئی ۔

کالعدم تحریک طالبان گروہوں میں یہ اختلاف ظاہر کرتا ہے کہ یا تو عمر منصور کالعدم تحریک طالبان سے اپنے راستے جدا کر چکے ہیں یا کالعدم تحریک طالبان کا اپنے چند گروہوں پر سے کنٹرول ختم ہوتا جا رہا ہے ۔داعش کی وجہ سے بھی کالعدم تحریک طالبان کو سخت نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس کے بہت سے کمانڈر جنگجو داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔حافظ سعید خان جو کہ کچھ عرصہ قبل کالعدم تحریک طالبان کے رکن تھے اب وہ داعش کے ایک گروپ کی خراسان کے علاقے میں قیادت کر رہے ہیں۔

افغان حکام کی جانب سے بھی یہ بیان جاری کیا جا چکا ہے کہ حافظ سعید خان افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں سے اپنی جان بچا چکے ہیں ۔باجوڑ سے تعلق رکھنے والے کالعدم تحریک طالبان کے ایک گروپ نے بھی داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے جس کے باعث کالعدم تحریک طالبان کی تحریک کو نقصان پہنچا۔گزشتہ سالوں میں بھی کالعدم تحریک طالبان مختلف گروہوں میں اس وقت تقسیم ہوئی تھی جب ان کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کیا گیا تھا۔

نومبر2013میں حکیم اﷲ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئے تھے ۔ مولوی فضل اﷲ کو طالبان کا امیر مقرر کیا گیا تو جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلہ سے تعلق رکھنے والے دو جنگجوؤں خان سید عرف سجنا اور شہریار محسود نے آپس کی جھڑپوں کے بعد اپنے گروپس بنائے تھے جس میں 200سے زائد طالبان ہلاک ہوئے تھے ۔

گزشتہ سالمہمند ایجنسی میں عمر خالد خراسانی، مولانا قاسم خراسانی اور احسان اﷲ احسان نے جماعت الاہرار کے نام سے نئے گروپ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ پاکستانی حکومت کو اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر حملوں کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہے جیسا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد بھی پاک فوج کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی ۔