ایران سعودی عرب تنازعہ میں پاکستان کا کردار غیرجانبدارانہ ہے، ہم اس جنگ کے حق میں نہیں ، مگر حرمین شریفین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے گا،نیشنل ایکشن پلان پر پہلے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا، کسی نے کان نہیں دھرا، ہم نے ملک کے امن کیلئے اس کی حمایت کی،اسلام کے پاس مکمل معاشی اور سیاسی نظام موجود ہے جو امریکہ اوراس کیحواریوں کا کھٹکتاہے،لال مسجد کو مسئلہ بناکر مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا جارہاہے،ہم جہاد والا اسلام نہیں مانگ رہے ہیں ،تبلیغی جماعت پر پابندی مضحکہ خیز ہے ایسا مارشل لاء میں بھی نہیں ہوا،سانحہ چارسدہ کی پیشگی اطلاع کو صوبائی حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا،جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا مجلس شوریٰ کے اجلاس اور تحفظ حرمین و شریفین کانفرنس سے خطاب

اتوار 31 جنوری 2016 20:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31جنوری۔2016ء) جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایران سعودی عرب تنازعہ میں پاکستان کا کردار غیرجانبدارانہ ہے ہم کسی بھی صورت اس جنگ کے حق میں نہیں ہیں مگر حرمین شریفین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے گا،نیشنل ایکش پلان پر اس وقت بھی تحفظات کا اظہار کیا تھامگر کسی نے کان نہیں دھرے اور ہم نے ملک کے امن کیلئے اس کی حمایت کی،اسلام کے پاس مکمل معاشی اور سیاسی نظام موجود ہے جو امریکہ اوراس کے حواریوں کا کھٹکتا ہے جس کی وجہ سے مسلمان ملکوں میں جان بوجھ کر حالات خراب کئے جارہے ہیں،لال مسجد کو مسئلہ بناکر مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا جارہاہے،ہم جہاد والا اسلام نہیں مانگ رہے ہیں ہمیں جمہوریت والا اسلام چاہیے ،ادارے یہ چاہتے ہیں کہ مولوی جذباتی ہوجائیں اور قانون کے شکنجے میں آجائیں،عام آدمی کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ،تبلیغی جماعت پر پابندی مضحکہ خیز ہے ایسا مارشل لاء میں بھی نہیں ہوا،کسی بھی ملک میں تبلیغی جماعت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

سانحہ چارسدہ کے حوالے سے وفاقی حکومت نے ایک ہفتہ پہلے اطلاع دی تھی مگر صوبائی حکومت نے سنجیدہ نہیں لیاآج پشاور میں بھتہ خوری عام ہے ۔وہ اتوارکو جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد اور تحفظ حرمین و شریفین کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مسلمان کبھی بھی اپنے سے سوگنا طاقت ور قوت سے لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ عقل اس کی اجازت نہیں دیتی معاملات کو اگر تدبر کے ساتھ سلجھایا جائے تو بہتر ہے جنگ کسی بھی طرح مسائل کا حل نہیں ہے مگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی اور پاکستان کے عوام کو آگ اورخون سے گزارا گیا پوری دینا میں مسلمانوں کو صرف اس لئے نشانہ بنایاجارہاہے کہ طاغوتی طاقتیں اسلام سے خائف ہیں،انہوں نے کہا کہ حرمین کو نشانہ بنانے کیلئے ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ وہاں کے عوام اورپوری دنیا کے مسلمانوں میں سعودی عرب کی حکومت کے خلاف جذبات کو بھڑکایاجارہاہے تاکہ آسانی سے حرمین کو نشانہ بنایا جاسکے، سعودی عرب ایران جنگ کے مخالف ہیں اورپاکستان کے ثالثی کے کردار کو سراہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی لوگوں کو لڑایا جارہا ہے،محرم اورربیع الاول کے جلوسوں کے حوالے سے نئی قانون سازی ضروری ہے مگر بعض ایسی قوتیں جو درپردہ بیرونی آلہ کار ہیں وہ کسی صورت پاکستان میں مذہبی رواداری کے حق میں نہیں ہیں جس میں بعض ہمارے اپنے لوگ بھی شامل ہیں جو فرقہ واریت کو پروان چڑھا کر ایک مذہبی طبقے کو دوسرے مذہبی طبقے کے سامنے کھڑاکررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ مغرب کے مفاداتی نظام کی ترجیحات بدل گئی ہیں،90کی دہائی کے بعد سیاسی مخالفوں کو پکڑکر ان پر مالی بدعنوانی کا الزام لگادیا جاتاتھااسی لئے9/11کے بعد جس کو بھی پکڑاگیا اس پر دہشت گردی کا لیبل لگادیاگیا جس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا،مدارس،مساجداورعلماء کو نشانہ بنایا گیا اور اب پھر مساجد اورعلماء کو نشانہ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں،کچھ قوتیں ملک کے حالات خراب کررہی ہیں،جامع حفصہ جیسے مسائل دینی مدارس کو پیچھے دھکیلنے کے لئے کھڑے کئے جاتے ہیں ملک میں مسلح جماعتیں موجود ہیں لیکن امن کے نام مدارس کے تقدس کو پامال کیاجارہاہے اور طاقت کے استعمال سے نہ تو مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ امن قائم ہوتا ہے۔