ایچ ای سی کی طرف سے بلوچستان کے طلباء کے سکالر شپ غیر بلوچی طلباء کو دینے پر سینٹ قائمہ کمیٹی کا شدید احتجاج

بلوچستان کے طلباء کو دہشتگرد سمجھ کر پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز میں داخلہ نہ دینے پر سینیٹرز کا واک آؤٹ

بدھ 3 فروری 2016 22:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔03 فروری۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بلوچستان طلباء کے سکالر شپ کا کوٹہ ملک کے دیگر حصوں کے طلباء کو الاٹ کرنے پر شدید احتجاج کیا ہے جبکہ سینیٹر نثار محمدخان احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے ۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حقوق نہ دینے سے صوبے کے نوجوانوں کے اندر احساس محرومی پیدا ہوا ہے اورصوبے کے اندر بدامنی پیدا ہوئی ہے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ کا اجلاس سینیٹر عثمان کاکڑ کی صدارت میں بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا اجلاس میں سینیٹر جمال دین سینیٹر نثار خان ، سینیٹر روزی خان سینیٹر عابدہ پروین نے شرکت کی اس کے علاوہ وزارت تعلیم کے اعلیٰ افسران اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کیمٹی کو بریف کیا ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کے فیس معافی پروگرام کے تحت بلوچستان کے 30585 جبکہ فاٹا کے 12229 طلباء کو سہولت دی گئی جس پر کمیٹی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ یہ حصہ انتہائی کم ہے اس میں اضافہ کیا جائے ۔ کمیٹی اراکین نے بلوچستان کے ڈومیسائل کے غلط استعمال کو روکنے پر زور دیا سینٹر جہانزیب جمال دین نے کہا کہ افسران دو ماہ کی نوکری کے بعد اپنے اور اپنے بچوں کا ڈومیسائل بلوچستان کا حاصل کرکے مراعات لیتے ہیں یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے سینیٹرز نے کہا کہ بلوچستان کے طلباء کے لئے مختص سکالر شپ میں 60فیصد غیر بلوچی طلباء کو دیئے جاتے ہیں جس پر سینیٹر نثار خان نے واک آؤٹ کرگئے سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ حقوق نہ دینے پر فاٹا اور بلوچستان میں جاری صورتحال کا سامنا کررہے ہیں سینیٹر جہانزیب جمال دین نے کہا کہ تھرپارکر میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں ان لوگو ں کو سکالر شپ دینا تو دور کی بات ہے روٹی تک میسر نہیں ہے وفاقی حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان پر ابھی تک عمل نہیں کیا جارہا ہے پورے ملک کی یونیورسٹیوں کو توسیع پروگرام کا فنڈ دیئے گئے ہیں لیکن بلوچستان کی کسی یونیورسٹی کو فنڈز فراہم نہیں کئے گئے ہیں سینٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے افسران نے عزم کررکھا ہے کہ ترقی یافتہ علاقہ کو مزید غربت میں دھکیلا جائے اور ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دی جائے وفاقی افسران بلوچستان کے عوام سے تعصب کی پالیسی ختم کریں سینیٹر جہانزیب جمال دین نے کہا کہ بلوچستان سے طلباء کو دہشتگرد سمجھ کر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹلز میں داخلہ نہیں دیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں پنجاب یونیورسٹی ہر شعبہ میں بلوچستان کا کوٹہ دو طلباء فی شعبہ تھا جو کہ ایک سیٹ کیا گیا ہے جو کہ ظلم ہے کمیٹی اراکین نے کہا کہ فیڈریشن کے تمام یونٹ کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جائے تاکہ لوگوں کے اندر احساس محرومی کو ختم کیاجاسکے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک بھر میں بنیادی تعلیم سکول ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے 134 سکول فاٹا میں بند ہوچکے ہیں جبکہ اس نظام کے تحت ملک بھر میں 12204سکول کام کررہے ہیں ۔