سندھ اسمبلی میں بحث کے دوران ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین میں تلخ کلامی

میری تصویر عزیر بلوچ کے ساتھ ہے ، جو کرنا ہے کر لیں ۔ میری تصویر اجمل پہاڑی ، جاوید بندہ اور شجاعت ہاشمی کے ساتھ نہیں ہے، ڈپٹی اسپیکر

بدھ 3 فروری 2016 22:30

سندھ اسمبلی میں بحث کے دوران ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور ایم کیو ایم کے ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 فروری۔2016ء) سندھ اسمبلی میں بدھ کو کراچی ایئرپورٹ کے واقعہ پر قرار داد مذمت پر بحث کے دوران ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا اور ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین خان میں زبردست تلخ کلامی ہوئی ۔ ڈپٹی اسپیکر نے محمد حسین خان کا مائیک بند کرادیا ، جس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر زبردست احتجاج کیا ۔

یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی ، جب محمد حسین خان نے قرار داد پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ادوار حکومت میں ماضی میں بھی پرامن احتجاج کرنے والوں پر تشدد کی کارروائیاں کی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کی گئی ۔ ایک دہشت گرد کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ ، کئی وزراء اور ڈپٹی اسپیکر کی تصویریں ہیں ۔

(جاری ہے)

سیدہ شہلا رضا نے کہا کہ ہم عوامی لوگ ہیں ۔

ہماری تصویریں سب کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لوگوں کی تو ویڈیوز موجود ہیں ، جن میں انہیں جرائم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ میری تصویر عزیر بلوچ کے ساتھ ہے ، جو کرنا ہے کر لیں ۔ میری تصویر اجمل پہاڑی ، جاوید بندہ اور شجاعت ہاشمی کے ساتھ نہیں ہے ، جنہوں نے مجھے دھمکیاں دی تھیں ۔ ان کے نام جی ایچ کیو سے آئے تھے اور مجھے بتایا گیا تھا کہ مجھے ان سے خطرہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی جانیں چلی گئی ہیں اور ان سے ہمدردی کی بجائے دوسری باتیں کی جا رہی ہیں ۔ یہ جلسہ نہیں ، جس میں بھڑاس نکالی جائے ۔ محمد حسین اس دوران بولتے رہے ۔ شہلا رضا نے کہا کہ آپ کا مائیک نہیں کھلے گا ۔ آپ ہاتھ نیچے کر کے بات کریں ۔ آپ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے ۔ سکون کی دوا لیں ۔ ڈرامہ بہت ہو گیا ۔ اب یہ نہیں چلے گا ۔

جنہوں نے مجھے دھمکیاں دیں ، وہ مارے گئے ۔ ماحول کو خراب کرنا ایک سازش ہے تاکہ قرار داد منظور نہ ہو ۔ ایم کیوا یم کے ارکان مائیک بند کرنے کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور ایوان میں زبردست شور شرابا رہا ۔ ایوان کا ماحول دوسری مرتبہ اس وقت خراب ہوا ، جب مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن سورٹھ تھیبو نے کہا کہ تھر کے مسئلے پر بات کرنے کی بجائے یہ قرار داد پیش کی گئی ہے ۔

کیا تھر کے بچے سندھ کے بچے نہیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا اور کہا کہ تقریر کو قرار داد تک محدود رکھا جائے ۔ ایوان کا ماحول تیسری مرتبہ اس وقت کشیدہ ہو گیا ، جب ایم کیو ایم کی خاتون رکن ارم عظیم فاروق نے کہا کہ نعرہ یہ لگایا جاتا ہے کہ بھٹو زندہ ہے ۔ کہاں ہے بھٹو ۔ اس پر بھی پیپلز پارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا ۔ اسپیکر نے ارم عظیم فاروق سے کہا کہ لیڈر شپ کے بارے میں کوئی ریمارکس نہ دیئے جائیں ۔ اسپیکر نے ارم عظیم فاروق کے ریمارکس حذف کرا دیئے ۔