پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گئے

6.4 ارب ڈالر مالیت کے تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت آئی ایم ایف ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے پر پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی دسویں قسط ادا کرے گا

جمعرات 4 فروری 2016 22:05

اسلام آباد + دبئی ۔ 4 فروری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔04 فروری۔2016ء) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت 10ویں معاشی جائزہ سے متعلق مذاکرات کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گئے۔ 6.4 ارب ڈالر مالیت کے اس پروگرام کے تحت آئی ایم ایف ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے پر پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی دسویں قسط ادا کرے گا۔

جمعرات کو دبئی میں مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈآئی ایم ایف کے ساتھ پہلی مرتبہ دسواں معاشی جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا ہے جو ٹیکسیشن، توانائی، زری و مالیاتی شعبوں کے علاوہ سرکاری شعبہ کے کاروباری اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے نفاذ سے متعلق حکومتی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی نمو کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے، ملکی معیشت کے تمام اشاریے درست سمت میں گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کئے ہیں جن کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری حکومت کو ورثہ میں 8.8 فیصد کا مالیاتی خسارہ ملا جسے 5.3 فیصد تک کم کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال 2015-16ء کے دوران مالیاتی خسارہ کو مزید کم کرکے 4.3 فیصد کی سطح پر لانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح جو 2013ء میں 12 فیصد تھی وہ 2.1 فیصد تک لائی گئی ہے یہ 12 سال کے دوران افراط زر کی کم ترین سطح ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پائیدار پالیسیوں کی بدولت غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑی ادائیگیوں کے باوجود 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔20.27 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر میں سے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پاس 15.43 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بنکوں کے پاس 4.48 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تمام شعبوں میں مالیاتی نظم و نسق اختیار کیا ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی اخراجات جو محض 400 ارب روپے تھے انہیں بڑھا کر 700 ارب کردیا گیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالہ سے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ منصوبہ ملک میں اقتصادی ترقی میں بہت نمایاں کردار ادا کریگا۔ انہوں نے کہاکہ مالیاتی شعبہ میں حکومت نے اصلاحات شروع کی ہیں جس سے مالیاتی شعبہ اوربالخصوص بنکنگ سیکٹر مزید مستحکم ہوا ہے۔

انہوں نے دسویں معاشی جائزہ کے سلسلے میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو بھی سراہا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے جس سے ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں کیمیکلز، فرٹیلائزر اور آٹو موبائل کے شعبوں میں بہتری آئی ہے۔

توانائی کے شعبہ سے متعلق وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک سے توانائی کے بحران کے خاتمہ کیلئے وزیراعظم نے کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو اس وقت 18 سے 20 گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی جس میں واضح کمی لائی گئی ہے اور اب صنعتی شعبہ کیلئے کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کیلئے متعدد منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن کے نتیجے میں 2018ء تک سسٹم میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی شامل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے حکومت نے دیگر سہولیات کے علاوہ ”ون سٹاپ شاپ“ کا تصور پیش کیا ہے جہاں ایف بی آر، ایس ای سی پی اور سرمایہ کاری بورڈ سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں جس کا مقصد ملک میں کاروبار کی لاگت کو کم کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ملک کے غریب طبقہ کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے معاونت فراہم کر رہی ہے، اس پروگرام کیلئے مختص بجٹ 40 ارب ر وپے سے بڑھا کر رواں مالی سال کے دوران 105 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس سے 53 لاکھ مستحق خا ندان استفادہ کر رہے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ماہانہ وظیفہ 10 ہزار سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مستحق طلباء کو فیس کی واپسی کی سکیم بھی شروع کی گئی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے بجٹ میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ سکیم نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف 7 لاکھ 11 ہزار ٹیکس دہندگان گوشوارے جمع کراتے ہیں۔

اس سکیم کے بعد ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں اتنا ہی قرضہ لیا گیا ہے جس کی قانون میں حد مقرر کی گئی ہے۔ اگر ہم نے اصلاحاتی ایجنڈا نافذ نہ کیا ہوتا تو یہ قرضہ 12 ہزار ارب روپے تک پہنچ جاتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقتصادی اصلاحات کے ذریعے قرضوں میں بتدریج کمی لانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔