پنجاب اسمبلی میں’بھاری‘ پٹواری چھائے رہے ، گو نواز گو گو آلو گو ، گو عمران گو کے نعرے ، مساجد کو بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس سے مستسنیٰ قراردینے کی قرارداد مسترد ، پیٹرول کی نرخ میں کمی پر حکومت کی قرارداد مسترد حکومتی تحسین کی قراداد منظور ،

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 فروری 2016 22:53

پنجاب اسمبلی میں’بھاری‘ پٹواری چھائے رہے ، گو نواز گو گو آلو گو ، گو ..

لاہور (ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-محمد نوازطاہرسے۔09فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں پٹواری چھائے رینے اور گو نوز گو ، گو آلو گو ، گو عمران گو کے نعروں میں پیٹرول کی قمیت میں پانچ روپے کمی کرنے کے فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے مزید کمی کے مطالبے کی قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیٹرولک کی قمیت میں کمی کرکے شالید روپے فی لٹر مقرر کرنا کا مطالبہ مسترد کردیا گیا جس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور کہا لکہ حکومت عوام کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہے ۔

بنگلہ دیش میں پاکستان سے ہمدردی رکھنے کی بنیاد پر پھانیساں پانے والوں کو نشانِ پاکستان دینے کی قرارداد موخر اور مساجد کی بجلی کے بلوں میں ٹیلیویژن فیس ختم کرنے کی قرارداد مسترد کردی گئی البتہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کو دن سولہ دسمبر کو شہید بچوں سے منسوب کرکے قومی دن قراردینے کی قرادادیں منظور کرلی گئیں ۔

(جاری ہے)

سپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں اجلاس کے دوران اپوزیشن نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے مبطالبے کی اﺅٹ آف ٹرن قرارداد کا مطالبہ کیا جس کے تکنیکی پہلوﺅں پر حکومت اور اپوزیشن ارکان میں نعروں کا تبادلہ ہوا جس دوران اپوزین نے ایوان کی کارروائی کا واک آﺅٹ کیاتو وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ وہ اپوزیشن کی قرارداد میں اپنیءترمیمی قرارداد لانا چاہتے ہیں جس پر اپوزیشن واک آﺅٹ ختم کرکے ایوان میں لوٹ آئی ۔

قواعد معطل کرکے اپوزیشمن لیڈر میاں محمود الرشید نے قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے فی لٹر کمی کرکے عوام سے بھونڈا مذاق کیا ہے ، قرارداد میں پیٹرول کی قیمت چالیس روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد وزیر قانون رانا ثنااللہ نے ترمیمی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ ایوان پیٹرول کی کی قیمت پین پہانچ روپے فی لٹر کمی پر وفاقی حکومت کی تحسین کرتا ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل قیمتوں کے پیش نظر مزید کمی کے لئے اقدامات کی سفارش کرتا ہے ۔

اپوزین ارکان وزیر قانون کی اس قرارداد پر بڑھ گئے اور اسے حکومت کی چمچہ گیری سے تعبیر کیا ، اس مرغلے پر ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن میں گو نواز گو ، اور عوام دشمی حکومت اور گو عمران گو کے نعرے لگائے گئے جبکہ اپوزن نعرے ہلگاتی ہوئی یہ کہہ کر ایوان سے باہر چلی گئی کہ پنجاب حکومت کا چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے ، اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ترمیمی قراداد منظور کرلی گئی ۔

اس پہلے متعدد قراردادیں منظور کی گئیں ۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ تعلیمی اداروں کا تحفظ یقنیءبنایا جائے اس قرارداد کے جواب میں وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کرتے ہوئے حکو مت نے سیکیورٹی کے جو ایس او پی بنائے تھے ان پر سو فیصد عمل کیا جارہا ہے ۔ سبطین خان کی قراداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبہ بھر میں غیر قانونی نصب سائن بورڈ فوری طور پر ہٹائے جائیں ، ڈاکٹر وسیم اختر کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ جھوٹے مقدمات اور ایف آئی آر کی روک تھام کیلئے متعلقہ قوانین میں موزوں ترامیم کی جائیں ۔

سبطین خان کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں اینجیو گرافی کی سہولت بتدریج فراہم کی جائے ۔ اپوزیشن لیڈر کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کمی کے حکومتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔ اس قرارداد کے جواب میں وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے پچھلے سال ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت ان تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافے سے روکا گیا ہے اور 2014کی فیسوں کے مطابق فیس کی وصولی کا پابند بنایا گیا ہے ۔

حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین کی ایک قرارداد گرما گرم بحث کے بعد موخر کردئی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان وفاقی حکوت سے مطا؛لبہ کرتا ہے کہ ملا عبدالقادر اور محترم قمرالزمان ، جنہیں پاکستان کی محبت کی وجہ سے بنگلہ دیش میں پھانسی دیکر شہید کیا گیا ہے ، کو نشانِ پاکستان دیا جائے ۔ اس قرارداد کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ اس اقدام کو پوری دنیا میں ناپسند کیا گیا ہے اور بنگلہ دیشس کی حکومت کا ظالمانہ اقدام و طرز عمل قراردیا گیا ہے ۔

یہ خارجہ امور سے معاملہ ہے اور محکمہ خارجہ کو رائے لینے کیلئے مراسلہ بھیجا گیا ہے ، جس کا جواب ابھی موصول نہیں ہوا ۔ انہوں نے جواب ملنے تک قرارداد موخر کرنے کی درخواست کی تو قرارداد کے محرک شیخ علاﺅالدین نے یہ قرارداد منظور کرنے پر اصرار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت یہ تمام اقدامات بھارت کی پشت پناہی پر کررہی ہے ۔

اس میں مرکزی حکومت سے پوچھنے کا مسئلہ نہیں یہ پاکستان کے عوام کی جذبات ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرزشید اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر نے بھی قرارداد منظور کرنے پر زور دیا ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کا کہنا تھا کہ یہ بے ضرر سی قرارداد ہے منظور کرنے پنجاب کے عوام کی طرف سے اچھا پیغام جائے گا میاں محمود الرشید نے کہا کہ کچھ چیزیں ہمادری بنیاد ہیں ، ان پھانسیوں پر ہم سب لوگ افسردہ ہیں ایسی تحریک حکومت کی طرف سے آنبا چاہئے تھی لیکن کیا یہاں بھارت نوازوں کیخلاف محبِ پاکستان کاکا نام لینا بھی جرم ہے؟ تو یہ ہماری لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

اپوزیشن رکن ڈاکٹر وسیم اختر کی طرف سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد حکومتی مخالفت کی وجہ سے کثرتِ رائے سے مسترد کردی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مساجد کو بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس سے استثنیٰ دیا جائے ۔ اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ مساجد سے ملحقہ امام مسجد کی رہائش گاہ میں بھی ٹی وی استعمال ہوتا ہے ، یہ چھعوٹ دینے سے پیچیدگیاں پیدا ہونگی ۔

جس پر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ حکومت نے این جی اوز ککو بہت سی چیزوں میں چھوٹ دے رکھی ہے ، مساجد اللہ کا گھر ہیں ، تو وزیر قانون نے وضاحت کی اس میں کوئی شلک نہیں کہ مساجد اللہ ہی کا گھر ہیں ، ہم یہ بھی نہیں کتے کہ مساجد سے ملحقہ رہائش گاہ پی ٹی وی پر کوئی فضول ، آوارہ گردی والا کوئی پروگرام دیکھا جاتا ہے یا دیکھا جائے گا بلکہ یہ خوش آئند امر ہے کہ بہت سے ٹی وی چینلز پر روضہ رسول اور خانہ خدا کی زیارت ہوتی ہے حمدیہ اور نعتیہ پروگرام بھی پیش ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مساجد کے بجلی کے بلوں میں یہ فیس ختم نہیں کی جاسکتی ، مساجد میں خیر کا کام ہوتا ہے تو ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی یہی ہوتا ۔

تو ڈاکٹر وسیم اختر نے جواب دیا کہ تعلیمی اداروں اور کچھ ہسپتالوں میں منفعت کا پہلو بھی ہوتا ہے ۔اسی طرح جب سبطین خان کی طرف سے تمام ہسپتالوں میں ایجنیو گرافی کی سہولت فراہم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی تو وزیر قانون نے کہا کہ اس میں اضافہ کیا جائے کہ تمام ہسپتالوں میں یہ سہولت بتدریج فراہم کی جائے کیونکہ اس پر کروڑوں روپے کی لاگت آتی ہے جس پر اپوزیشن لیڈر نے فقرہ چست کیا اگر فنڈز کا مسئلہ ہے تو اورنج لائن میٹرو ٹرین اور میٹرو ٹرین کے منصوبوں پر بتدریج کا لفظ استعمال کیا جائے اور ان منصوبوں سے تھوڑے سے فنڈز لیکر ہسپتالوں کو فراہم کردیے جائیں تاکہ عام آدمی کو طبی سہوتیں فراہم کی جاسکیں مگر حکومت عوامی فلاح کے منصوبوں میں بے نقاب ہورہی ہے۔

حکومتی رکن حنا پرویز بٹ نے پاسپورٹ اور نادرا کے دفاتر میں خواتین کی تصاویر بنانے کیلئے خواتین اہلکار تعینات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بعض اوقات خواتین نے جینز یا ایسا ہی لباس پہنا ہوتا ہے جنہیں مرد اہلکاروں کے سامنے مشکلات کا سامنا ہوتا تو حکومتی رکن اعظمیٰ بخاری نے ان کی قرارداد کی مخالفت کردی اور کہا کہ یہ صنفی تقسیم ہے ، ان کا کہنا تھا قرارداد میں خواتین کی ترقی کی توہین کی گئی ہے اور طالبان جیسا طرز عمل ہے جبکہ خواتین ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرہی ہیں اور یہ اقدام خواتین کی کمزور دکھانے کے مترادف ہے ، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر نے اس قرارداد کی حمایت کی لیکن یہ قرارداد منظور نہ ہوسکی ، یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قرارداد پر بات کرتے ہوئے جب حنا پرویز بٹ نے اردو اور انگریزی مکس کی تو سپیکر نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی سہولت کیلئے کسی ایک زبان کا انتخاب کرلیں لیکن اردو کا کہہ کر وہ مکس زبان استعمال کرتے رہیں جس سے ایوان کا ماحول کچھ دیر کیلئے خوشگوار ہوگیا۔

اس سے پہلے وقفہ سوالات کے دوران حکوممتی اور اپوزیشن اراکین میں گرما گرم بحث ہوئی جب پٹوارویوں کے بارے میں سوال زیر بحث آیا تو محمکہ مال کی پارلیمانی سیکڑٹری نازیہ راحیل نے بتایا کہ لاہور میں پٹواریوں کے دفاتر کا کرایہ محکمہ مال ادا کررہا ہے لیکن اپوزیشن نے اسے چیلنج کردیا اور کہا کہ پٹواری یہ کرایہ خود سے ادا کرتے ہیں محکمہ مال کے بجٹ میں کرائے کی ادائگی کا ذجکر ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ کرایہ عوام سے لی جانے والی رشوت سے ادا کیا جاتا ہے ، پارلیمانی سیکرٹریءنے مطالبہ کیا کرائے کی ادائیگی پر اعتراض کرنے والے اس کا ثبوت اپیش کریں تو اپوزیشن رکن صدیق خان نے کہا کہ کرائے کی ادائیگی کا ثبوت گراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بجٹ میں کرائے کی ادائیگی شامل نہیں اس مرحلے پر سپیکر نے بھی پارلیمانی سیرٹری کی حمائت کی ۔

اس طرح ایوان میں پٹواریوں کے معاملے پر دیر تک بحث ہوتی رہی اور حکومت پٹواریوں کا تحفظ اور اپوزیشن پٹواری کلچر کی مخالفت کرتی رہی اس موقع پر پٹواریوں ، حکومت اور اپوزیشن رہنماﺅں کیخلاف نعرے لگائے ، اپوزیشن نے گو نواز گو ، اور گو آلو گو جبکہ حکومتی اراکین نے گو عمران گو کے نعرے لگائے ۔ یہ عمی ایک سے زائد بار دہرایا گیا ۔ اجلاس کے دوران وزیر قانون نے بتایا کہ لینڈ کمپیٹرائزیشن کا منصوبہ ایک ماہ میں مکمل ہوجائے اوگ اور ایک ماہ میں وزیر اعلیٰ اس کا باقاعدہ افتتاح کریں گے جس سے پٹواری ک؛لچر کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اجلاس بدھ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے ۔