میں کوئی بدتمیز بندہ نہیں ،میرا انداز تھوڑا سا کبھی کبھی تیکھا ہوجاتا ہے ،احمد شہزاد

اتوار 14 فروری 2016 15:10

میں کوئی بدتمیز بندہ نہیں ،میرا انداز تھوڑا سا کبھی کبھی تیکھا ہوجاتا ..

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 فروری۔2016ء) قومی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بلے باز احمد شہزاد نے کہا ہے کہ اب میں اپنے غصے پر کافی بہتر انداز میں قابو پالیتا ہوں ،اس سے پہلے مجھے اپنے اچانک پیدا ہونے والے غصے کی وجہ سے کافی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن کیا کیا جائے کہ میرا مزاج ہی جارحانہ ہے ،گزشتہ سال میری کارکردگی کچھ اچھی نہیں رہی اوراس کا مجھے احساس ہے، ورلڈ کپ اور پھر تینوں فارمیٹس میں عوام کی توقعات میں پوری نہیں کرسکا۔

کرکٹ ویب سائٹ کو انٹر ویو میں احمد شہزاد نے کہا کہ ایک اچھے کرکٹر کیلئے فریش مائنڈ کا ہونا ضروری ہے اور جب آپ نماز پڑھتے ہیں تو پھر آپ کا دماغ فضول باتوں سے ہٹ جاتا ہے جس کا فائدہ ہوتا ہے۔میری بیگم تھوڑی مذہبی ہے بلکہ میرے خیال میں ہر پاکستانی خاتون ہی مذہبی ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔

(جاری ہے)

میری بیگم بھی مجھے اس کی تاکید کرتی رہتی ہے اور مجھے اس کا فائدہ بھی ہورہا ہے اور میرے مزاج میں کافی فرق پڑا ہے۔

اب میں اپنے غصے پر کافی بہتر انداز میں قابو پالیتا ہوں ،اس سے پہلے مجھے اپنے اچانک پیدا ہونے والے غصے کی وجہ سے کافی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن کیا کیا جائے کہ میرا مزاج ہی جارحانہ ہے ۔انہوں نے اس سوال کہ وقار یونس کہتے ہیں کہ ان سے آپ کے ساتھ انجانے میں کچھ زیادتیاں ہوگئی ہیں تو کیا کیا ہے انہوں نے آپ کے ساتھ؟یہ تو ان سے ہی پوچھنا چاہیے ۔

وقار یونس ٹیم کے کوچ ہیں اور ایک بڑے کھلاڑی ہیں اور ہمارے ہیرو ہیں۔یہ ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے میرے بارے میں ایسا کہا۔ انہوں نے کہا کہ سلیکٹرز کے پاس اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں کھلائیں میرے خیال میں برے وقت میں خاص کر کے ایسے وقت میں جب کسی کھلاڑی کی کارکردگی اس کے معیار کے مطابق نہ ہو کوچز کو اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ایسے وقت میں آپ کو ایک ایسے سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کی حوصلہ افزائی کرے ۔

میرے لئے یہ کردار مشتاق بھائی اور شاہد آفریدی نے نبھایا اور ان دونوں نے میری کارکردگی کو بہتر بنانے اور اپنا اسٹرائیک ریٹ بہتر بنانے میں مدد دی۔انہوں نے کہا کہ شاید بھائی نے مجھے میڈیا کی باتوں پر غور دینے کے بجائے صرف اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا مشورہ دیا اور میں نے اپنی پوری توجہ اس پر دی ہے مجھے امید ہے کہ ورلڈ ٹی ٹونٹی میں میری کارکردگی پاکستانی ٹیم کے کام آئے گی۔

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لئے بھی میں بھرپور محنت کرتا رہا ہوں اور ایسا نہیں ہے کہ میں بہت لمبی پلاننگ کررہا ہوں ۔آپ محنت کرتے ہیں لیکن ہر بار اس کا آپ کو پھل مل جائے یہ ضروری نہیں ہوتا لیکن میں نے محنت کرنا نہیں چھوڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ پاکستانی ٹیم میں میری نہ صرف جگہ مستقل ہوجائے گی بلکہ میں شائقین کی توقعات کے مطابق اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانے میں کامیاب رہوں گا۔

اس سلسلے میں میری کوشش ہے کہ اپنا مزاج صرف گراؤنڈ میں ہی جارحانہ رکھوں ۔میں کوئی بدتمیز بندہ نہیں ہوں ہا ں یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا انداز تھوڑا سا کبھی کبھی تیکھا ہوجاتا ہے ۔جب میری کارکردگی خراب ہوتی ہے تو مجھے خود پر بہت زیادہ غصہ آتا ہے اور جب ایک اچھا بیٹسمین ناکام ہوتو کپتان اور کوچ کو بھی غصہ آتا ہے ۔بس یہ سمجھ لیں کہ دو تیز رفتار گاڑیاں ٹکرائیں تو حادثہ ہو ہی جاتا ہے بالکل اس کی طرح میرا بھی کبھی کبھی کوچ اور کپتان سے انداز گفتگو تھوڑا ساغلط ہوجاتا ہے جس کا مجھے احساس ہے اور میں اس مسئلے کے حل کی کوشش کررہا ہوں کہ حل نکل آئے۔

انہوں نے اس سوال کہ پی ایس ایل میں آپ کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے سرپرست ویوین رچرڈز ہیں۔ کیا آپ اپنی بیٹنگ تکنیک بہتر کرنے کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے پر امید ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے احمد شہزادنے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے ،ویوین رچرڈز ماضی میں آج والی کرکٹ کھیلتے تھے۔ میرے خیال میں یہ میرے لئے بہترین موقع ہوگا کہ میں ان سے کچھ سیکھ سکوں۔

میری کوشش ہے کہ جدید دور کے مطابق کرکٹ کھیل سکوں اس وقت کرکٹ بہت بدل چکی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وکٹ پر رکنے اور رنز بنانے کی بھوک کے بنیادی اصول ابھی تک ویسے ہی ہیں۔میرا انداز جارحانہ ہے اور میں بلند شارٹس کھیلنے کا خواہشمند رہتا ہوں اس لئے کبھی کبھی غلط شارٹس بھی کھیل جاتا ہوں لیکن کوئی بھی بیٹسمین جان بوجھ کر آؤٹ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ میں اپنی بیٹنگ کارکردگی میں تسلسل لاؤں، خاص کرکے اوپننگ میں نہ صرف تیزی سے اسکور کو بڑھاؤں اور پاور پلے کو کارآمد بناؤں بلکہ وکٹ بھی بچاؤں۔ انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کافی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ میں اپنا نیچرل گیم کھیلوں اور سو فیصد کارکردگی دکھاؤں لیکن کبھی کبھی ان سے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کیونکہ لالہ کا ایک اصول ہے کہ وہ دوستوں کی طرح پیش بھی آتے ہیں کپتان کی طرح خراب کارکردگی پر کلاس بھی لیتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :