کوئی معجزہ ہو تو الگ البتہ زمینی حقائق کے مطابق قوم ورلڈ ٹی ٹونٹی میں کامیابی کیلئے امیدیں نہ باندھے ، شعیب اختر

منگل 16 فروری 2016 13:32

کوئی معجزہ ہو تو الگ البتہ زمینی حقائق کے مطابق قوم ورلڈ ٹی ٹونٹی میں ..

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 فروری۔2016ء) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بالر شعیب اختر نے کہا ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ زمینی حقائق کے مطابق قومی ورلڈ ٹی ٹونٹی میں کامیابی کے لئے زیادہ امیدیں نہ باندھے ، قومی ٹیم کو اچھے بچے کی نہیں اچھے بالر کی ضرورت ہے ،یہ سوچ کر سر میں درد شروع ہو جاتا ہے کہ ہمارے بالرز کو کیا بنادیا گیا ہے، وہاب ریاض اٹیکنگ بالر ہے لیکن اسکی اسپیڈ کم کرانے کے لئے محنت ہورہی ہے اوراس کو نئی گیند نہیں دی جارہی،اب ہمیں بالرز کو رنز روکنے کی تاکید کی بجائے وکٹیں لینے کا سوچنا ہوگا وگرنہ ہمارے خلاف ٹی ٹونٹی میں 200اور ون ڈے میں 400رنز بھی بن جائیں گے ،بد قسمتی ہے کہ ہمارے پاس اچھے بلے باز نہیں آئے یا پھر ہمارے پاس انہیں ڈھونڈنے اور بنانے کا کوئی انتظام ہے نہ ہی ہم ضرورت محسوس کرتے ہیں، گھوم پھر کر وہی لڑکے ہیں مجھے تو ان کا سلمانی ٹیلنٹ نظر نہیں آتا ناجانے سلیکٹرز کو کہاں سے نظر آجاتا ہے؟۔

(جاری ہے)

ایک انٹر ویو میں شعیب اختر نے کہا کہ اب کرکٹ پہلے والی نہیں رہی کہ ٹیمیں ہٹنگ کیلئے آخری دس اوورز کا سوچیں گی اب تو بیٹسمین کو جب موقع ملتا ہے وہ بالنگ لائن کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جدید انداز کی کرکٹ کی باتیں بہت سننے کو مل رہی ہیں لیکن مجھے تو پرانی والی کرکٹ بھی نظر نہیں آتی، کم از کم ون ڈے میں پچاس اوورز ہی ہماری ٹیم کھیل لے اب تو وہ بھی کبھی کبھی ہی ہوتا ہے ورنہ تو ہمارے بیٹسمین ناجانے کونسی کرکٹ کھیلتے ہیں اور دکھ کا یہ مقام ہے کے پاکستان کی بہترین بالرز اب ایک سو چالیس یا ایک سو پینتالیس سے اوپر کی رفتار سے آگے ہی نہیں جارہے ۔

مجھے تو لگتا ہے یہ جرم ہے اور اس کی مجرم ہماری ڈومیسٹک کرکٹ والے ہیں جو اتنی خراب وکٹیں بناتے ہیں کہ کوئی بالر اگر تیز ہوتا ہے بھی تو وہ اپنی رفتار کم کردیتا ہے کیونکہ ٹیمیں اسے ایک دو میچز کے بعد دوبارہ ٹیم میں جگہ نہیں دیتی ،ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس اچھے بالرزنہیں ہیں لیکن انہیں جہاں جاکر اچھا بالر بننا چاہیے وہیں وہ جاکر مزید خراب ہورہے ہیں ۔

نیشنل اکیڈمی کی افادیت نظر نہیں آرہی ہے۔میں نے پی سی بی کے بڑوں سے جاکر ملاقات کی تھی اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ وہ پاکستان کرکٹ کے لئے اچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیاجائے کہ نچلی سطح پر بہت زیادہ گند جمع ہوگیا ہے۔بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ ان کے مفتے بند ہوجائیں، ایک سسٹم ابھی اپنا نتیجہ نہیں دیتا وہ نیا سسٹم بنادیتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ نہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی مقابلے کا رجحان ہے نہ ہی ہمارے بڑے کرکٹر ڈومیسٹک کھیلتے ہیں، اب پاکستان سپر لیگ سے کچھ اچھے نوجوان کرکٹر مل جائیں ۔مجھے تو دکھ ہی رہا ہے کہ پاکستان کرکٹ کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے حوالے کیا گیا ہے جو صرف نوکری کرنا جانتے ہیں۔ اب اس کو ہی دیکھ لیں سب کہہ رہے ہیں کہ ایک سو چالیس سے زیادہ رفتار والے بالرز نہیں ہیں تو کیوں نہیں اور نہیں ہیں تو بنانے کے لئے جو کوچز رکھے ہیں، وہ کیوں کسی بالر کی رفتار نہیں بڑھا سکتے؟ ایسے بہت سے کوچز دنیا میں موجود ہیں اور کئی بالرز موجود ہیں جن کی رفتار آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی ہے لیکن ہمارے ساتھ تو الٹا مسئلہ ہے مجھے کہا جاتا تھا کہ میں اپنا اسٹارٹ کم کرلوں میں نے منع کیا تو پھر مجھے ٹیم سے باہر بٹھایا جانے لگا، رگڑا دینے کی کوششیں کی گئیں لیکن میں تو کبھی باز نہیں آیا کیونکہ ایک فاسٹ بالر کو اپنا پتہ ہوتا ہے میرا ایکشن کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وقار یونس بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں وہ مزید تو کچھ بھی نہیں کرسکتے جس حال پر ٹیم کو وہ لے آئے ہیں اس سے برے حال میں تو ٹیم کو کوئی غیر ملکی بھی نہیں لاسکتا تھا مجھے تو بورڈ کی سمجھ نہیں آتی ایک تو ہمارے بالرز کی کارکردگی دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ دس دس وکٹوں سے ٹیم ہار رہی ہے۔ تین تین سو کے ہدف کا دفاع مشکل ہوگیا ہے کوئی بالر ایسا نہیں بچا جس پر بھروسہ ہو کہ چلو یار اس کو دس اوورز میں تو مار نہیں پڑے گی اور یہ دو چار وکٹیں تو اڑا ہی دے گا۔

انہوں نے کہا کہ عامر بہت اچھا بالر ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب بھی بہت موثر بالر ہے لیکن اس کی بالنگ سے ایسا نہیں لگتا کہ اس میں پہلے والا جارحانہ مزاج باقی بچا ہے اس کو ایک بہتر بالر بننا ہے لیکن ایک بالر کا اگر مزاج ہی جارحانہ نہیں ہوگا تو وہ خاک اچھا بالر بنے گا ۔سب اس کو اچھا بچہ بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں بھائی اس کو اچھا بالر بنائیں ٹیم کو ایک اچھے بچے کی نہیں ایک اچھے فاسٹ بالر کی ضرورت ہے ہاں اس پر نظر ضرور رکھیں لیکن اس کو قید نہ کردیں اس کو آزادی دیں کہ وہ کھل کر اپنا غصہ اور اپنی بالنگ کراسکے۔

یقین جا نیے مجھے بہت مایوس ہورہی تھی جب وہ بالنگ کرارہا تھا اور کیچ چھوٹنے پر بھی بے بسی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ عامر ایک سو پچاس کی رفتار سے بالنگ کراسکتا ہے تو اس کو کرانے دیں اس پر دباؤ نہ ڈالیں کہ وہ رنز روکے، اس کو وکٹیں اڑانے کے لئے استعمال کریں آپ دیکھیں آپ وہاب ریاض کے ساتھ کیا کررہے ہیں میرے خیال میں وہ اس پائے کا بالر ہے کہ وہ کسی بھی ٹیم کے اوپنرز کا برا حال کردے۔

آپ نے اس کو نئے بال سے اعتماد ہی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ پاکستانی ٹیم میں بہت کچھ بدل گیا ہے اس وقت جو لڑکے کھیل رہے ہیں بہترین پاکستانی کرکٹرز ہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ جو انہیں کھلارہا ہے وہ شاید ہماری ٹیم کو سنبھالنے اور چلانے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔آپ ورلڈ ٹی ٹونٹی کے بعد جو کرنے والے ہیں وہ ابھی کردیں مجھے کوئی یہ نہ کہے کہ ٹیم پر اس کا برا اثر پڑے گا میری بہت سے لڑکوں سے بات ہوئی ہے کہ انہیں فٹنس کے نام پر رگڑے لگائے جارہے ہیں آپ محمد عرفان کو دیکھ لیں اس کو ضائع کردیا گیا ہے۔

جنید خان کی مثال لے لیں اس کے ساتھ کیا گیا ہے ایک فاسٹ بالر کو جتنی میچ پریکٹس کی ضرورت اتنی ہی اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں بس رگڑے لگائے جارہے ہیں فٹنس کے نام پر پاکستان کے ٹیلنٹ کو ضائع کیا جارہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ پاکستان ٹی ٹونٹی جیتے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ ہمارے ایونٹ میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہے ہاں اگر محمد عامر اور کوئی بیٹسمین فارم میں آگئے یا لالہ نے پرانی پرفارمنس دہرا دی تو شاید کوئی معجزہ ہوجائے لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ قوم کوئی بہت زیادہ امیدیں نہ باندھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر توجہ نہ دی گئی تو پاکستانی کرکٹ دن بدن تنزلی اور تاریکی میں ڈوبتی چلی جائے گی اور ہماری کرکٹ کا بھی وہی حال ہوجائے گا جو ہاکی یا اسکواش کا ہوگیا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ہماری عوام افغانستان سے جیتنے پر ہی جشن منانے لگے۔اللہ کرے کے پاکستان میں کرکٹ چلانے والوں کو ہوش آجائے اورملکی کرکٹ کو بچا لیا جائے

متعلقہ عنوان :