36سال گزرنے کے باوجود او پی ایف کی ہاوسنگ سوسائٹی تعمیر نہیں ہوسکی ،اس کی وجہ سے اخراجات میں کروڑوں روپے کااضافہ ہوا ہے،جاپان روڈپر 5 ہزار کنال اراضی ہے تاخیر کیو جہ سے لوگ عدالت میں چلے گئے

پبلک اکاؤنٹس کی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام کا انکشاف او پی ایف کی 11ہاوسنگ سکیمیں 1980 سے چل رہی ہیں، 2018 تک یہ سکیمیں مکمل ہو جائیں گی، ان سے 7 ارب روپے کا منافع ہوگا،ایم ڈی او پی ایف پی اے سی کی او پی ایف ہاؤسنگ سکیم کی جلد تکمیل کی ہدایت

منگل 16 فروری 2016 19:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔16 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 36 سال گزرنے کے باوجود او پی ایف کی ہاوسنگ سوسائٹی تعمیر نہیں ہوسکی ، جس کیوجہ سے لاگت میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا ہے ، آڈٹ حکام نے بتایاکہ جاپان روڈپر 5 ہزار کنال اراضی ہے تاخیر کیو جہ سے لوگ عدالت میں چلے گئے ، ایم ڈی او پی ایف حبیب الرحمان نے بتایاکہ او پی ایف کی 11ہاوسنگ سکیمیں تھیں جو 1980 سے چل رہی ہیں 2018 تک یہ سکیمیں مکمل ہو جائیں گی اور اس سکیم سے 7 ارب روپے کا منافع ہوگا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ تاخیر کی وجہ سے 906 ملین سے زائد کے اخراجات بڑھ گئے کمیٹی نے کہا کہ جلد از جلد تعمیر کو مکمل کیا جائے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 1996 میں او پی ایف کے بورڈ آف گورننس کے 6 ممبران نے اسلام آباد ہاوسنگ سیکم میں خلاف قواعد اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پلاٹ غیرقانونی طور پراپنے نام الاٹ کردیے جس سے قومی خزانے کو ڈیرھ کروڑروپے سے زائد کانقصان ہواجس پر ایم ڈی اوپی ایف نے بتایا کہ تمام پلاٹ منسوخ کردیے گئے ہیں جس پر چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے الاٹ منٹ غیرقانونی طور پر کی گئی چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس ہاوسنگ سیکم کو جاری رکھا جائے اور اگر امانتدار ہی خائن ہوجائے توکیا کیاجائے اگر ان کیخلاف ایف آئی آر ہوتی تو کوئی عدالت نہ جاتا چیئرمین کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کے سپر دکرنے کی ہدایت کردی ، تمام رپورٹس ویب سائیٹ پر بھی جاری ہونی چاہیے لیکن تمام رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد ہی آڈٹ حکام اپنی ویب سایٹ پر جاری کریں ، منگل کو پبلک اکاؤنٹس کی کمیٹی کا اجلاس چئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا اجلاس میں وزارت امور کشمیر اور اوور سیز پاکستانیز فاونڈیشن کے مالی سال2010-11کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیااجلاس میں وزارت امور کشمیر کے تما م آڈٹ اعتراضات نمٹا دیے گئے جبکہ ممبر اسمبلی شاہدہ اختر کو پبلک اکاونٹس کی ذیلی کمیٹی کی کنونئیر شپ سے ہٹا کر ممبران اسمبلی اور شاہدہ اختر کی تجویز سے پاکستان تحریک انصاف کے شفقت محمود کو کمیٹی کا کنونئیر مقرر کردیا گیااجلاس میں آڈٹ حکام نے درخواست کی کہ عوام کی اگاہی کے لیے تمام آ ڈٹ رپورٹس کو ویب سائیٹ پر بھی جاری کیا جائے جس کوچئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی تجویز ہے کہ تمام رپورٹس ویب سائیٹ پر بھی جاری ہونی چاہیے لیکن تمام رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد ہی آڈٹ حکام اپنی ویب سایٹ پر جاری کریں ، اجلاس میں آڈٹ حکام نے شکایت کی کہ او پی ایف نیمالی سال 2013/14/15کے آڈٹ اکاؤنٹس فراہم نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے کمپنی کی مالی حالت پر ہم کمنٹس نہیں کرسکتے ہیں پچھلے دوسالوں کے کرنٹ اکاؤنٹس کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے جبکہ موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں ٹھیکداروں کو دی گء رقم کو بھی ایڈجسٹ نہیں کیا جاسکا جس پر اوپی ایف حکام نے بتایاکہ ٹھیکدار نے ابھی تک بل ہی نہیں جمع کرایا جس پر ممبران کمیٹی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیکدارا نتہائی تونگر ہے کہ جس نے ابھی تک بل ہی جمع نہیں کرایا ہے کمیٹی نے معاملہ موخر کردیا،ا جلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 36 سال گزرنے کے باوجود او پی ایف کی ہاوسنگ سوسائیٹی تعمیر نہیں ہوسکی ہے جس کیوجہ سے کروڑوں روپیکے اخراجات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے ، آ ڈٹ حکام نے بتایاکہ جاپان روڈپر 5 ہزار کنال اراضی ہے تاخیر کیوجہ سے عدالت میں چلے گئے ، ایم ڈی او پی ایف حبیب الرحمان نے بتایاکہ او پی ایف کی 11ہاوسنگ سکیمیں تھیں جو 1980 سے چل رہی ہیں 2018 تک یہ سکیمں مکمل ہو جائیں گے اور اس سکیم سے 7 ارب روپے کا منافع ہوگا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ تاخیر کی وجہ سے 906 ملین سے زائد کے اخراجات بڑھ گئے کمیٹی نے کہا کہ جلد از جلد تعمیر کو مکمل کیا جائے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 1996 میں او پی ایف کے بورڈ آ آف گورننس کے 6 ممبران نے اسلام آ باد ہاوسنگ سیکم میں خلاف قواعد اختیارات کا ناجائز استعمال کرتیہوئے پلاٹ غیرقانونی طور پراپنے نام الاٹ کردیے جس سے قومی خزانے کو ڈیرھ کروڑروپے سے زائد کانقصان ہواجس پر ایم ڈی اوپی ایف نے بتایا کہ تمام پلاٹ منسوخ کردیے گئے ہیں جس پر چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے الاٹ منٹ غیرقانونی طور پر کی گئی چئرمین کمیٹی نے کہا ہکہ اس ہاوسنگ سیکم کو جاری رکھا جائے اور اگرامانتدار ہی خائن ہوجائے توکیا کیاجائے اگر ان کیخلاف ایف آئی آ ر ہوتی تو کوئی عدالت نہ جاتا چئیرمین کمیٹی نے معاملہ ایف آ ئی اے کے سپر دکرنے کی ہدایت کردی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ایف ایٹ میں گرلز کالج کی تعمیر کا معاملہ بھی زیر بحث آ یا ، جس پر ایم ڈی نے بتایاکہ الشفا ہسپتال والوں نے جوائنٹ وینچرکرنے کی آفر کی ہے جس پر چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ تو سراسر بدنیتی ہے اوپی ایف کے اپنے فنڈز اربوں روپے میں ہے اور کس طرح ایک نجی ہسپتال کے ساتھ جوائنٹ وینچر ہوسکتا ہے اب تو میڈیکل کالج بھی بہت بڑی انڈسٹری بن گی ہے ایک طالبعلم پر 15 لاکھ روپے آتا ہے اگر 100 طالبعلوں کو یہ داخلہ دیں تو اس کا مطلب ہے ہر سال 75 کروڑ روپے کماتے ہیں،چئیرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ نجی ہسپتال کیساتھ اس حوالے سے کوئی ڈیل نہ کی جائے اور تمام معاملے کو پی اے سی تفتیش کرے کمیٹی نے اس حوالے سے تمام تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔

اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سید خورشیدنے انکشاف کیا کہ کہ سرکاری اداروں میں10سے 12لاکھ افراد دہری ملازمتیں کررہے ہیں جن کا سرکار کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اگر سرکاری ملازموں کو کمپیوٹرائزد کر دیا جائے تو دہری ملازمت رکھنے والوں کی نشاندہی ہوجائے اور بے روزگاری پر قابو پانے کے علاوہ صیح ڈیٹاحاصل ہو جائے گا، بائیو میٹرک کے ذریعے اور نادرا کی مد دسے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اجلاس کے آخر میں چیئرمین کمیٹی سیدخورشید شاہ نے ممبر کمیٹی سردار عاشق گوپانگ کو دیکھتے ہوئے کہاکہ آج آپ تھوڑا بولے ہیں زیادہ میں بولا ہوں جس پر حاضرین مسکرا پڑے