کٹاس راج کے مندر---ہزاروں سالوں کی تاریخ کے امین

کٹاس کے مندروں کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے‘کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس سات ہندو مندروں سمیت سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیرو کاروں کے مقدس مقامات اور تاریخی عبادت گاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے:اردو پوائنٹ خصوصی فیچر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 22 فروری 2016 09:29

کٹاس راج کے مندر---ہزاروں سالوں کی تاریخ کے امین

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-رپورٹ وتصاویرمیاں محمد ندیم۔22فروری۔2016ء)صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں چوا سیدن شاہ کے نزدیک کوہستان نمک کے سلسلے میں کٹاس نامی گاو ں ہندوو ں کا انتہائی تاریخی اور مقدس مقام ہے، جس کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے۔شری کٹاس راج کہلانے والی یہ انتہائی قدیم ہندو مذہبی باقیات چکوال شہر سے قریب تیس کلو میٹر جنوب کی طرف کلر کہار روڈ پر واقع ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندوو ں کی ایک بڑی آبادی تھی 1947میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت میں یہاں کے تمام ہندو نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے ۔ کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس سات ہندو مندروں سمیت سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیرو کاروں کے مقدس مقامات اور تاریخی عبادت گاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے، جس کا انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے پاس ہے۔

(جاری ہے)

مذہبی احترام کی وجہ سے مندروں میں داخل ہونے والے سیاحوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ننگے پاو ں اور سر ڈھانپ کر اندرداخل ہوں۔ہندو مذہبی روایات کے مطابق جب شیو نامی دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو شیو اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوو ں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی۔ اس طرح ہندوو ں کے لیے مقدس دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک پشکار (اجمیر میں) ہے اور دوسرا کٹکشا۔

سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوو ں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کٹکشا صدیوں بعد بدلتا بدلتا اب کٹاس بن چکا ہے۔مرکزی تالاب، اس کے ارد گرد قائم مندر، حویلی، بارہ دری اور پس منظر میں موجود مندر کا مینار کی ایک طرف مسجد بھی موجود ہے۔ ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد پانڈوں نے کٹاس میں 12سال گزارے تھے اور متعدد مندر تعمیر کروائے تھے۔

کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔ کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی 30 فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔ شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔

کوہستان نمک کا پورا علاقہ چھوٹی بڑی پہاڑیوں پرمشتمل ہے، جہاں صدیوں پہلے زیادہ تر ہندو مندر ایسی پہاڑی چوٹیوں پر بنائے گئے کہ ان تک پہنچنے کے لیے بل کھاتی پتھریلی سیڑھیوں کا ایک طویل سلسلہ عبور کرنا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال آج تک قائم ہے۔حویلی اندرونی دیواریں انتہائی خوبصورت نقش و نگار اور تصاویر مزین ہیںجو یہاں صدیوں قبل سکھ جنرل ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کروائی تھی۔

اس حویلی کے دیوان خانے اور زنان خانے کی باقیات آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں موجود ہیں۔ ان قدیم باقیات کے مذہبی دوروں کے لیے آج بھی دنیا بھر سے ہر سال ہزارہا ہندو اور سکھ یاتری کٹاس راج کا رخ کرتے ہیں۔جنرل ہری سنگھ نلوا کی طرف سے بنوائی گئی حویلی کے دیوان خانے کی ایک دیوار پر ہندوو ں کے ہاتھی دیوتا گھنیش کی ایک تصویر ہے جس میں گھنیش کو مختلف جانوروں کو کھانے کے لیے کچھ پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسی ہر تصویر کسی نہ کسی دیومالائی ہندو مذہبی روایت کی عکاسی کرتی ہے۔ کٹاس راج کے مندروں کی تعمیر میں زیادہ تر چونا استعمال کیا گیا تھا۔سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ دیوان خانے کے ایک جھروکے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی رنگا رنگ نقش نگاری اور اس جھروکے سے نظر آنے والا کٹاس راج کا منظر سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا باعث ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کٹاس راج کا قدیم ترین اسٹوپا اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔کوہ نمک کی قریبی پہاڑیوں سے کٹاس راج کی کئی عمارات بیک وقت دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں مندر بھی ہیں،حویلی بھی اور کئی دروازوں والی قیام گاہیں بھی۔ کئی عمارات کے مختلف حصوں کے ارد گرد آہنی جنگلے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے لگوائے، جن کا مقصد اس عظیم اور تاریخی ورثے کو وقت کے ہاتھوں مزید ٹوٹ پھوٹ سے روکنا تھا۔

کٹاس راج کی اپنے مخصوص طرز تعمیر اور گنبد والی بارہ دری دیگر مندروں کے مقابلے میں کئی صدیاں بعد تعمیر کی گئی تھی۔ اس لیے اس بارہ دری کی حالت دیگر مندروں اور معبدوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کٹاس راج کے اکثر چھوٹے مندر قریب نو سو برس قبل تعمیر کیے گئے تھے لیکن ان میں سے اولین کی چھٹی صدی عیسوی میں ہندو شاہیہ کے دور میں تعمیر کے شواہد بھی موجود ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق کئی مندروں کی تعمیر لگ بھگ 900سال قبل کی گئی جبکہ پہاڑی پر قائم قلعہ نما عمارت اس سے بھی کافی عرصہ قبل تعمیر کی گئی تھی، جو بنیادی طور پر عسکری نوعیت کی ایک عمارت تھی۔اسی طرح بدھ اسٹوپا کی طرز پر تعمیر کردہ چھوٹی سی عبادت گاہ اس دور کی تعمیرات پر بدھ مت کے اثرات کا پتہ دیتی ہے۔ طاقچوں والے اسٹوپا نما مندر میں ہندو دیوتا شیو سے منسوب شیو لِنگ رکھا ہوا ہے، جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی19 صدی کے آخر میں تیارکردہ دستاویزات کے مطابق کٹاس راج چھٹی صدی عیسوی سے لے کر بعد کی کئی صدیوں تک ہندوو ں کا ایک انتہائی مقدس مقام تھا۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ کٹاس راج ان قدیم ہندو مندروں میں سے ایک تھا، جہاں پہلی مرتبہ شیو لِنگ کی پوجا شروع کی گئی تھی۔شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

کٹاس راج میں مونگے کی چٹانوں میں فوصلز کی طرح کے بہت سے قدیم حیاتیاتی نمونے دیکھنے میں آتے ہیں۔متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔2005 میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔

ہرسال بھارت سے سینکڑوں ہندوتاتری کٹاس راج یاترا کے لیے آتے ہیں دونوں ممالک کی حکومتیں اگر چاہیں تو یاتریوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ ہندومذہب کٹاس راج کے مندروں کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے اور ہر ہندوکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ کٹاس راج کے مقدس تلابوں میں اشنان کرکے خود پوترکرئے-

کٹاس راج کے مندر---ہزاروں سالوں کی تاریخ کے امین