چاہے کتنی باڑیں لگا دو، سرحدیں بند کر دو، ہم آ کر رہیں گے،شامی مہاجرین

گزشتہ برس یورپ پہنچنا آسان تھا جب لوگ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے چلتے تھے تاہم اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے،گفتگو

اتوار 13 مارچ 2016 14:43

برسلز(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مارچ۔2016ء) متعدد یورپی ملکوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش، بحیرہ ایجیئن میں نیٹو کے بحری جہازوں کے گشت اور ترک حکام کی سخت تر کارروائیوں کے باوجود چند شامی مہاجرین نے اب بھی یورپ پہنچنے کے لیے عزم کاظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ ان کا سفر سرحدیں بند کرنے سے رکنے والا نہیں بلکہ ہم آگے بڑھ کرر ہیں گے،جرمن خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے یونیورسٹی کے طالب علم تیئس سالہ محمد سوادی نے کہاکہ اس کا اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ سفر شامی دارالحکومت دمشق سے شروع ہواانہیں گھر چھوڑنے سے قبل ہی معلوم تھا کہ یونان سے آگے بڑھنا مشکل ثابت ہو رہا ہے اور متعدد ممالک کی سرحدیں بند ہیں تاہم وہ یورپ پہنچنے کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں۔

سوادی کا کہنا تھاکہ ہم نے ایک عہد کیا تھا، ہم یورپ پہنچ کر رہیں گے اور ایک ساتھ رہیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ ہم تینوں رشتہ دار نوجوان ترکی سے ہوتے ہوئے یونانی جزیرے کیوس پہنچے اور پھر وہاں سے پیرایوس،اوراب میں جرمنی اپنے بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں اور پھر ہالینڈ میں جا کر مستقل بنیادوں پر قیام کا خواہاں ہوں لیکن بیشتر یورپی رہنما بھی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم تینوں شامی نوجوانوں کا سفر کافی وقت لے سکتا ہے۔

سوادی کے ساتھ سفر کرنے والا اس کا ایک کزن صالح عابد کا کہنا تھاکہ ہم شامی شہریوں کو اپنی قسمت خود ہی لکھنی ہو گی۔ ہم ایک خیمہ خریدیں گے اور سرحد پر چلے جائیں گے۔ مجھے وہاں جانے سے کوئی خوف نہیں۔ میں بس کسی مہاجر کیمپ میں نہیں رہوں گا۔ اس کے بقول اب حالات کافی مختلف ہیں۔ گزشتہ برس یورپ پہنچنا کافی آسان تھا، جب لوگ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے بس چل رہے تھے تاہم اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔

متعلقہ عنوان :