شام میں خانہ جنگی سے ماہانہ ساڑھے چھ ارب ڈالر کا نقصان ہورہاہے،مطالعاتی جائزہ

2011ء سے اب تک 275 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ،82لاکھ بچے بھی جنگ سے متاثرہوئے،رپورٹ

پیر 14 مارچ 2016 19:02

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 مارچ۔2016ء) ایک نئے مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ شام میں جاری جنگ نے وہاں کی معیشت پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق اس جنگ کے معاشی اثرات نے سب سے زیادہ وہاں کے بچوں کو متاثر کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق رواں ہفتے ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج جاری کیے گئے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ پانچ برسوں سے جاری اس خونریز تنازعے میں پیداوار اور خدمات کے شعبے میں ہی ماہانہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

اس جائزے کو ’دی کاسٹ آف کنفلکٹ فار چلڈرن‘ (تنازعے سے بچوں کو پہنچنے والے نقصانات) کا عنوان دیا گیا ہے اور اسے بچوں کی بہبود کے لیے سرگرم ایک مسیحی ادارے ’ورلڈ وڑن انٹرنیشنل‘ نے مشاورتی ادارے ’فرنٹیئر اکنامکس‘ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس جائزے کے مطابق 2011ء سے لے کر اب تک شام کو 275 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے اور اگر یہ جنگ 2020ء تک جاری رہی تو یہ نقصان بڑھ کر 1.3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ تنازعہ اسی سال ختم بھی ہو جاتا ہے، تب بھی اس ملک کو 448 ارب اور 689 ارب ڈالر کے درمیان معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ شام میں امن قائم ہو جانے کے بعد بھی کھنڈر ہو چکی معیشت اور اقتصادی ڈھانچے کی بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق شام کو اپنی فی کس مجموعی آمدنی میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے دَس تا پندرہ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

اس خانہ جنگی کی وجہ سے شام کے ہمسایہ ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں، جہاں شام چھوڑ کر فرار ہونے والے لاکھوں شہریوں نے پناہ لی ہے۔ اس مطالعاتی جائزے میں ان ممالک مثلاً لبنان، اردن ا ور ترکی کی معیشتوں کو پہنچنے والے نقصانات کو بھی دیکھا گیا ہے۔ لبنان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں کی فی کس مجموعی قومی پیداوار اْس سے 23 فیصد کم ہے، جتنی کہ شامی تنازعے کے نہ ہونے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے خطّے میں کم از کم 8.2 ملین بچے اس خانہ جنگی سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے، جن کے والدین یا گھر کے دیگر افراد اس جنگ میں موت کا شکار ہوئے ہیں۔ دیگر بچے ایسے ملکوں میں مہاجر بن کر پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں اْن کے والدین کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور یوں وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہے۔

یہ چیز لاکھوں شامی بچوں کے مستقبل پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گی۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پناہ کی تلاش میں بھٹکنے والے شامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد غربت کا شکار ہو چکی ہے اور زیادہ تر کنبوں میں لوگ اپنے بچوں کو بھی کام پر بھیجنے پر یا بچوں کی اوائل عمری ہی میں شادی کر دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اس رپورٹ میں جہاں شام میں خانہ جنگی کے فریقین سے جنگ بند کر دینے کی اپیل کی گئی ہے، وہیں ترکی، اردن اور لبنان پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند نہ کریں، بچوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے مواقع فراہم کریں اور ایسے حالات پیدا کریں کہ ان بچوں کے بالغ لواحقین کہیں ملازمت کرتے ہوئے اپنا روزگار خود پیدا کر سکیں۔

متعلقہ عنوان :