قومی اسمبلی میں افغان سرحد پر سیکیورٹی مستحکم کرنے اوراقلیتی تہوار پرتعطلیل کی قرار داد متفقہ طور پر منظور

پاسپورٹ لازمی قراردیکر حکومت سرحد پر نقل و حرکت کے حوالے سے واضح پالیسی بنا رہی ہے ،مریم اورنگزیب

منگل 15 مارچ 2016 15:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 مارچ۔2016ء) قومی اسمبلی میں پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کو مضبوط کرنے کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی، پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت سرحد پر نقل و حرکتکے حوالے سے واضح پالیسی بنا رہی ہے، جس کے ذریعے پاسپورٹ لازمی قرار دیا جائے گا، ایف آئی اے کے قواعد و ضوابط کو بھی لاگو کیا جائے گا، وزیراعظم کو سمری بھیج دی گئی ہے، افغانستان کی طرف سے آنے والوں کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے، قرار داد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صاحبزادہ طارق اللہ ،شیریں مزاری، انجینئر عثمان ترکئی اور قرار داد کے محرک مراد سعید سمیت دیگر اراکین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بارڈر پر سیکیورٹی معاملات سمیت سمگلنگ پر قابو پانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، مغربی سرحد پر آزادانہ نقل و حمل کو روکا جائے تا کہ پاکستان میں امن بحال ہو، پاکستان میں رونما ہونے والے سانحات میں افغانستان سے آئے دہشت گرد ملوث ہوتے ہیں، ڈاکٹر رمیش کمار ونیکوانی کی اقلیتوں کے تہواروں کے حوالے سے تعطیل کے حوالے سے قرار داد سمیت عمرہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے مزمل قریشی کی قرار داد بھی منظور کرلی گئی۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں نجی ممبر ڈے کے موقع پر اراکین نے قرار دادیں پیش کیں۔ڈاکٹر رمیش کمار ونیکوانی اقلیتوں کیلئے ہولی، دیوالی اور ایسٹر پر عام تعطیلات کا اعلان کرنے کے حوالے سے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جیسے عید پر چھٹی ہوتی ہے اس طرح اقلیتوں کے تہواروں پر بھی عام تعطیل کا اعلان کیا جائے، تمام سیاسی جماعتوں میں اقلیتی ارکان موجود ہیں۔

وزیرمملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات نے کہا ہے کہ تعطیلات کا تعلق وزارت داخلہ سے ہے اور وہاں سے ہی عام تعطیلات کا سرکلر جاری ہوتا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پاکستانی ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں یکساں طور پر شامل ہیں، تمام مذاہب کو برابر کی نمائندگی موجود ہے، پاکستان میں تعطیلات کی تعداد دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔

وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزارت داخلہ اس قرار داد کی مخالفت نہیں کرے گی۔ وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے مزمل قریشی کی قرار داد پر کہا کہ عمرہ پالیسی تشکیل دینے کیلئے ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے اور حکومت کوشش کر رہی ہے کہ حج و عمرہ پالیسی کے ذریعے عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔

مراد سعید کی قرار داد پر پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ بارڈر کراسنگ پر ایف آئی اے نے کارروائی کی ہے اور بارڈر کراسنگ پر ایف آئی اے کے قواعد و ضوابط لاگو ہوں گے، جیوٹیگنگ کے ذریعے پاسپورٹ لازمی قرار دیا جائے گا۔ مراد سعید نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی میں بارڈر کی سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کا کہا گیا تھا، آرمی پبلک سکول اور دیگر حملوں میں سرحد کے اس پار سے دہشت گرد آئے اور کارروائی کی گئی اور یہاں دہشت گرد کارروائیاں کر کے افغانستان چلے جاتے ہیں۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مریم اورنگزیب انٹرنل سیکیورٹی پالیسی پر افغان حکام سے بات کی گی اور ”نارا“سمیت ”نادرا“ کو بھی انٹرنل سیکیورٹی پالیسی میں ضم کیا گیا۔ مراد سعید نے کہا کہ مغربی سرحد سے لوگ بھی آتے اور جاتے ہیں اور 8ملین ڈالر کی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے جبکہ افغانستان کے ساتھ قانونی تجارت صرف 2ملین کی ہے۔

عائشہ سید نے کہا کہ منشیات کی آزادانہ تجارت مغربی سرحد سے ہوتی ہے اور نوجوان نسل منشیات کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے، اسلحہ سمیت غیر قانونی گاڑیاں بھی مغربی سرحد سے پاکستان آتی ہیں۔ عبدالستار بچانی نے کہا کہ مغربی بارڈر کو سختی سے بند کیا جائے کیونکہ نقص امن کے خطرے سمیت دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور مشیر خارجہ آرمی چیف اس بارے میں بیان دے چکے ہیں، مگر پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ کی طرف سے اس کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارتوں کا آپس میں تعاون نہیں ہے۔

مولانا گوہر شاہ نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں افغان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی بات کی گئی ہے، امن و امان کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے مغربی سرحد پر سیکیورٹی کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عبدالقہار وڈان نے قرار د پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بارڈر کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کرے، پشتون پرامن قوم ہیں، 300 سال تک بادشاہی کی، سرحدات کی سیکیورٹی ہونی چاہیے، دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر قوم پشتون ہے۔

مولانا امیر زمان نے کہا کہ سرحد کے دونوں اطراف ایک ہی قوم آباد ہے، حکومت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں تضاد ہے،مغربی سرحد پر لیویز کے اہلکار شام کے وقت رشوت لے کر گاڑیوں کو دونوں جانب چھوڑ دیتے ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مدارس کے طالب علم یا اساتذہ ملوث نہیں رہے ہیں۔ عائشہ گلالئی نے کہا کہ قرارداد کی مخالفت حکومت کا درست قدم نہیں ہے، دہشت گرد افغانستان سے آ کر کارروائیاں کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔

انجینئر عثمان ترکئی نے کہا کہ افغانستان کو غیر قانونی طور پر برآمدات ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک کو اقتصادی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں افغانستان سے ہمیشہ ملتی ہیں۔ مراد سعید نے کہا کہ بھارت کے افغانستان میں 4قونصل خانے بنائے گئے ہیں، وہاں سے دہشت گردی ہو رہی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“اس میں ملوث ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت سیکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ میں بارڈر پر راہداری پاسز اور وقت مقررہ میں واپسی کا بارڈر کارڈ فراہم کیا جائے گا اور جتنے دن کارڈ ہولڈر رہے گا اس کی نگرانی بھی کی جائے گی، جتنے غیر ملکی پاکستان میں موجود ہیں نادرا ان کی مکمل نگرانی کر رہی ہے اور طور خم اور چمن بارڈر پر نقل و حرکت کو پاسپورٹ کے ذریعے ایف آئی اے کے قواعد پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور وزیراعظم کو اس بابت سمری بھی بھجوائی جا چکی ہے، تمام غیر ملکی پاسپورٹس کوکالعدم قرار دیا گیا ہے اور جعلی شناختی کارڈز اور غیر ملکی شناختی کارڈز کو بھی بلاک کیا گیا اور نادرا کے ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی ہے، خیبرپختونخوا حکومت اس وقت سو رہی تھی جب 20دن پہلے اے پی ایس حملے کا بتایا گیا تھا۔

صاحبزادہ طارق، غوث بخش مہر اور ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ حکومت کو اس قرار داد کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھی، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بارڈر کی سیکیورٹی سمیت اسمگلنگ پر قابو پائے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ سے متعلق جو پالیسی موجود ہے وہ بیان کر دی گئی ہے۔