قومی اسمبلی میں پاک افغان بارڈر کی سکیورٹی مضبوط کرنے کی قرارداد منظور کر لی ‘ فنڈز نہ ملنے پر اپوزیشن کی خواتین ارکان کا واک آؤٹ

منگل 15 مارچ 2016 17:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 15 مارچ۔2015ء) قومی اسمبلی میں پاک افغان بارڈر کی سکیورٹی مضبوط کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی جبکہ فنڈز نہ ملنے پر اپوزیشن کی خواتین ارکان نے واک آؤٹ کیا۔سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن مراد سعید نے پاک افغان بارڈر کی سکیورٹی مضبوط کرنے کی قرارداد پیش کی۔

جس کی پارلیمانی سیکرٹری داخلہ نے مخالفت کی۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ قرارداد میں اٹھائے گئے نکات نیشنل سکیورٹی کا حصہ ہیں۔ رکن اسمبلی مریم اورنگزیب نے کہا کہ اے پی ایس پر حملہ ہوا تو اس وقت صوبائی حکومت سو رہی تھی۔ آرمی پبلک سکول حملے کے بعد نادرا کے ساتھ ملکر اقدامات اٹھائے ہیں۔ نادرا کے ساتھ مل کر بارڈر کارڈ جاری کیا جائے گا، اس کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔

(جاری ہے)

چمن اور طورخم بارڈر پر نقل وحرکت روکنے کے لئے ایف آئی اے کے قواعد لاگو کرنے کی سمری صدر کو بھجوا دی ہے۔ غلط شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کئے جا رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے کہا کہ افغان بارڈر کی سکیورٹی مضبوط کرنے کے حکومتی پالیسی کے باوجود حکومت کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو بتانا چاہئے کہ خارجہ اور داخلہ پالیسی الگ الگ ہیں۔

پارلیمانی سیکرٹری داخلہ کے بیان کی وضاحت ہونی چاہئیے۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ افغان بارڈر کو بند کرنے کی بات کچھ خاندانون کو ملنے کو روکنے کے مترادف ہو گا۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سمجھ میں نہیں آتا۔ حکومت بارڈر سکیورٹی بہتر بنانے کی قرارداد کی مخالفت کیوں کر رہی ہے۔ مراد سعید نے کہا کہ دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں ان کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

وزارت کی جانب سے مخالفت سمجھ سے باہر ہے۔ ستار بچانی نے کہا کہ معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں دہشتگرد بھاگ جاتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ کی جانب سے مخالفت ختم کرنے پر قراداد منظور کر لی گئی۔ قومی اسمبلی میں فنڈز نہ ملنے پر اپوزیشن کی خواتین ارکان نے واک آؤٹ کیا۔ رکن قومی اسمبلی عائشہ سید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب ایم کیوایم کی جانب سے آئین میں ترمیم کا بل حکومت کی جانب سے مخالفت نہ کرنے پر قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔مردم شماری سے متعلق توجہ دلاؤنوٹس پرپارلیمانی سیکرٹر ی رانا افضل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے کہہ دیا ہے کہ یہ سال دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہو گا،مردم شماری کیلئے 2 لاکھ 44 ہزار فوجی اہلکاروں کی ضرورت ہے،فی الحال اتنی بڑی تعداد میں اہلکاروں کی تعیناتی کیلئے فوج دستیاب نہیں ہے۔

مردم شماری کیلئے 14 ارب 50 کروڑ روپے مختص کر دیئے گئے ہیں،جس پررکن ایم کیوایم کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ فوج اگر 20 سال مصروف رہے گی تو کیا مردم شماری نہیں ہو گی،اس دوران ایم کیوایم نے آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا ،حکومت کی جانب سے مخالفت نہ کرنے پربل متعلقہ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔