ایرانی خاتون سماجی کارکن اور وکیل نے آیت اللہ علی خامنہ ای کے تضادات کا بھانڈہ پھوڑ ڈالا

ایران میں خواتین کواپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں، ان کی عافیت زبانیں بند رکھنے میں ہے، جس نے ذرا سی بھی اختلاف کی جسارت کرڈالی تو اس کا انجام موت یا جیلوں کی تاریک کوٹھڑیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا،لیلیٰ کرامی کا جنیوا میں نوبل انعام یافتگان کے اجلاس سے خطاب

جمعرات 17 مارچ 2016 14:07

ایرانی خاتون سماجی کارکن اور وکیل نے آیت اللہ علی خامنہ ای کے تضادات ..

تہران/ جنیوا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 مارچ۔2016ء) خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایرانی سماجی کارکن اور وکیل لیلیٰ علی کرامی نے ولایت فقیہ کے نظام اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے تضادات کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوڑ ڈالا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنیوا میں منعقدہ نوبل انعام یافت گان کے ایک اجلاس کے دوران لیلٰی نے بتایا کہ ان کے ملک میں خواتین کے ساتھ کس طرح کا غیرمہذبانہ اور ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

39 سالہ لیلیٰ کرامی نے اپنی تقریر میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ ایران میں خواتین کے حقوق کو کس بے رحمی کے ساتھ پامال کیاجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کواپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں۔ ان کی عافیت زبانیں بند رکھنے میں ہے، جس نے ذرا سی بھی اختلاف کی جسارت کرڈالی تو اس کا انجام موت یا جیلوں کی تاریک کوٹھڑیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

خواتین سے بدسلوکی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے سیاہ باب کا ذکر کرتے ہوئے لیلیٰ کرامی نے کہا کہ ایران میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی آڑ میں صنف نازک سے امتیازی برتاوٴ کیا جاتا ہے۔ اگرکوئی خاتون ذرا سی بھی آواز بلند کردے تو اسے جیل بھجوانے میں ذرا تاخیر نہیں کی جاتی۔ حراست میں لیے جانے کے بعد خواتین پرظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تاکہ انہیں ملائیت کیخلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں جان سے مار ڈالا جائے۔

دلائی لاما اور توکل کرمان جیسے سرکردہ شخصیات کی موجودگی میں ایرانی خاتون سماجی رہ نما نے خواتین کے حقوق کا کھل کر مقدمہ لڑا۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں زبان کھولنے کی پاداش میں کئی خواتین کو موت کے گھاٹ اتارجا چکا ہے۔ حال ہی میں زنیب ارجائی نامی ایک سماجی کارکن کو خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں پھانسی دی گئی جب کہ بحاری ھدایت نامی ایک سرکردہ سماجی کارکن گذشتہ 9 برس سے تہران کے ایک عقوبت خانے میں پابند سلاسل ہے۔

خیال رہے کہ لیلیٰ علی کرامی بھی ایران کی ایک سرکردہ سماجی رہ نما ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے 2003ء میں ایرانی خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔ آج وہ نوبل انعام یافتہ ایرانی خاتون رہ نما شیریں عبادی کے قائم کردہ انسانی حقوق مرکز کی چیئر پرسن بھی ہیں۔ جنیوا اجلاس میں انہوں نے پوری جرات کے ساتھ ایرانی رجیم اور سپریم لیڈر کے تضادات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومتیں ملک میں بنیادی حقوق کی فراہمی کے جیسے دعوے کرتی ہیں عملا وہ ایسی ہرگز نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوان :