حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے، پرویز مشرف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ وطن واپس آ کر اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کریں گے

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 17 مارچ 2016 22:27

اسلام آباد ۔ 17 مارچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔17 مارچ۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالتے ہوئے انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے، پرویز مشرف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ وطن واپس آ کر اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کریں گے، حکومت کا اس فیصلے کے حوالے سے نہ کسی سے کوئی بیک چینل رابطہ ہوا ہے نہ کسی نے کچھ کہا ہے اور نہ کوئی اثرورسوخ یا سایہ منڈلا رہا ہے، یہ خالصتاً عدالتی فیصلہ ہے، پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کرنے، محفوط راستہ دینے اور معافی دینے کا مطالبہ کرنے والے آج سیاست چمکا رہے ہیں، 5 سال حکومت کرنے والی جماعت نے ان کیخلاف کیا کارروائی کی۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے تاہم کچھ لوگوں نے جن کے کان اور آنکھیں بند ہیں اور انہوں نے حکومت پر ہر صورت میں تنقید کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، اس ٹولے نے بہرصورت حکومت پر تنقید ہی کرنی ہے، خواہ حکومت کوئی بھی فیصلہ کر لے تاہم میں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو سیاست کا محور ٹی وی پر چلنے والے ٹکرز ہیں، آج ایک پارٹی کے لیڈروں کے ٹکرز چل رہے تھے اور بیانات آ رہے تھے حالانکہ یہی پارٹی 5 سال حکومت کرتی رہی ہے اور اسی نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا جب یہ مشرف کو معافی دینے کی بات کر رہے تھے تب تو ان کا حق حکمرانی ختم نہیں ہوا حالانکہ تب بھی پرویز مشرف پر بینظیر بھٹو کے قتل کے الزامات تھے۔

پانچ سال ان کی حکومت رہی تب پرویز مشرف کیخلاف کیا کارروائی کی۔انہوں نے کہا کہ آج جس کے منہ میں جو الزام آ رہا ہے وہ لگا رہا ہے، کیا کسی کو احساس ہے اور یاد ہے کہ مشرف کیخلاف اس کیس کو ہم نے شروع کیا۔ اگرچہ عدالت کا فیصلہ تھا لیکن آغاز ہم نے کیا۔ پونے دو سال سے مشرف ای سی ایل پر ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ عدالت کا جو فیصلہ ہو گا وہ سب کو قابل قبول ہو گا تو کیا یہ کوئی غلط بات ہے، یہی ہونا چاہئے ایسا کہہ کر اٹارنی جنرل نے کون سا گناہ کر دیا۔

اگر ہم نے مک مکا کرنا تھا تو ہمیں عدالت میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم پہلے ہی اجازت دے دیتے، ہم سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل میں گئے۔ سپریم کورٹ کے بعد آگے کوئی عدالت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے پرویز مشرف کو محفوط راستہ دیا، گارڈ آف آنر دیا اور معافی کا مطالبہ کیا آج وہ ٹکرز کے ذریعے سیاست چمکا رہے ہیں۔ پہلے دن سے حکومت اور وزیراعظم نوازشریف کا موقف ہے کہ پرویز مشرف سے کوئی ذاتی عناد نہیں ہے، وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کیساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو معاف کر چکے ہیں لیکن مشرف نے جو قوم کے ساتھ کیا اس کا فیصلہ عدالت کرے گی اور یہ معاملہ عدالت میں لے جایا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک ٹی وی چینل پر کہا گیا کہ ذاتی عناد ہے۔ ریکارڈ کے بغیر جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔ وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے یا نکالنے کا اختیار حکومت نے عدلیہ، ایف آئی اے، نیب اور ڈیفنس ہیڈ کوارٹرز کو دیا ہے۔ اگر کوئی ایک نام بھی حکومت نے خود ڈالا ہے تو بتایا جائے کہ ساڑھے نو ہزار نام ہم نے ای سی ایل سے نکالے ہیں اور بلیک لسٹ سے بھی نام نکالے ہیں جو سالوں سے اس لسٹ میں تھے۔

ای سی ایل کی تمام پالیسی ہم نے اکاؤنٹ ایبل کردی ہے، ای سی ایل سخت قانون ہے، گزشتہ ادوار میں میاں بیوی کے جھگڑوں پر بھی نام ای سی ایل میں ڈلوائے گئے، ہم نے اس سلسلہ کو ختم کیا اور شفاف قانون بنا کر اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ چیلنج کرتے ہیں کہ حکومت نے کسی کا نام اڑھائی سالوں میں نہ ای سی ایل پر ڈالا نہ نکالا۔

ایمرجنسی کے نفاذ کا سارا کیس عدلیہ کے حوالے سے ہے، عدلیہ پر وار کیا گیا۔ عدالت کے فیصلے کے قانونی پہلوؤں کا ہم نے جائزہ لینا تھا۔ ایف آئی اے نے مداخلت کر کے واضح پیغام دیا کہ بغیر اجازت کے پرویز مشرف کو نہیں جانے دیا جائے گا۔ ہم نے واضح کیا کہ ہم کسی صورت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ پرویز مشرف کو جانے کا کلی اختیار مل گیا ہے، یہ خبر درست ہے کہ مشرف کو رات گئے جانا تھا لیکن ہم نے اس معاملے میں مداخلت کی۔

پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے آج باقاعدہ درخواست دی گئی جس پر حکومت نے انہیں علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت کے سامنے ان کے وکلاء نے کمٹمنٹ کی ہے کہ چار چھ ہفتہ بعد پرویز مشرف واپس آ جائیں گے، اس بات کی بھی کمٹمنٹ کی ہے کہ ان کا عدالتوں کے سامنے پیش ہونے اور اپنے خلاف کیس کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں باضابطہ باقاعدہ اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ نیچے عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا ہے۔ سپیشل کورٹ سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک نے ان کو اجازت دی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پانچ سال ایک حکومت رہی جس نے پرویز مشرف کو کھلی چھٹی دی، گارڈ آف آنر دیا اور اس کیخلاف کوئی کیس نہیں بنایا۔

اگر حکومتی چاہتی تو پرویز مشرف کے کیس میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہ کرتی لیکن اب ہم نے عدالتی کارروائی اور عدالتی فیصلوں کے مطابق فیصلہ کیا ہے، جمہوری ملکوں میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں فیصلے کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر چیز کے پیچھے ہم کوئی نہ کوئی سایہ تلاش کرتے ہیں، پہلی حکومتوں میں ایسا ہوتا ہوگا، آج حکومت کی مشاورت ہوتی ہے، میں اپنی اور وزیراعظم کی سطح پر یہ یقین دہانی کرتا ہوں کہ نہ کسی سطح پر کوئی بیک چینل رابطہ ہوا ہے، نہ کسی نے کچھ کہا ہے، نہ کوئی اثرورسوخ یا سایہ منڈلا رہا ہے۔

البتہ سایہ ڈھونڈے والوں پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ خالصتاً عدالتی فیصلہ ہے، ای سی ایل پر کسی کا نام ڈالنا یا نکالنا عدالتی فیصلوں سے مشروط ہے۔ اس سلسلے میں اڑھائی سالوں کا ریکارڈ گواہ ہے۔ ایک سوال پرا نہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف کی اہلیہ اور وکیل کی طرف سے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کرنے کی درخواست آئی ہے۔