سان برناڈینو حملہ :ایف بی آئی رضوان فاروق کا آئی فون کھولنے میں کامیاب،اپیل کمپنی پریشان

منگل 29 مارچ 2016 12:52

سان برناڈینو حملہ :ایف بی آئی رضوان فاروق کا آئی فون کھولنے میں کامیاب،اپیل ..

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔29 مارچ۔2016ء) امریکی محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ ایف بی آئی سان برناڈینو کے حملہ آور کا فون ایپل کمپنی کے مدد کے بغیر کھولنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کے بعد ان کی جانب سے دائر مقدمہ ختم کردیا گیا ہے جبکہ ایپل کمپنی ان عدالتی احکامات کی مزاحمت کر رہی تھی جن میں رضوان فاروق کے موبائل میں موجود مواد تک حکام کو رسائی فراہم کرنے کو کہا گیا تھا۔

لیکن اب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود ہی یہ کام کر لیا ہے لہذا عدالتی احکامات واپس لے لیے جائیں۔رضوان فاروق اور ان کی اہلیہ نے سان برناڈینو میں حملہ کر کے 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں انھیں بھی سکیورٹی اہلکاروں نے گولی مار دی تھی۔گذشتہ ہفتے پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ ایک بیرونی فریق نے ایپل کی مدد کے بغیر ہی آئی فون کو ان لاک کرنے کا ایک ممکنہ طریقہ بتایا تھا۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے عدالتی کارروائی کو محکمہ
انصاف کے کہنے پر اس وقت تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے جب تک حکام آئی فون تک رسائی حاصل کرنے کے نئے طریقے کی جانچ نہیں کر لیتے۔اس بارے میں ایپل کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ انھیں یہ رسائی کیسے ملی اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت آئی فون کی اس کمزوری کو ان کے ساتھ ضرور شیئر کرے گی تاکہ اسے بھی آئی فون کی اس کمزوری کا علم ہو۔

کیلیفورنیا کی وفاقی پراسیکیوٹر ایلین ڈیکر کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں نے ایک تیسرے فریق کی مدد حاصل کی ہے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں کی سان برناڈینو کے متاثرین کے لیے ایک پختہ ذمہ داری ہے۔عدالتی حکم نے پرائیوسی پر ایک بحث چھیڑ دی تھی ایپل کا کہنا تھا کہ موبائل ڈیٹا تک حکام کی رسائی سے خطرناک مثال قائم ہو جائے گی۔

کمپنی کے اس فیصلے کو دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کی حمایت حاصل تھی جن میں گوگل، مائکروسافٹ اور فیس بک شامل ہیں۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹی جیمز کومنے کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ان کی ملازمت کے دوران پیش آنے والا مشکل ترین سوال ہے،تاہم ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تلاشی کے ایسے وارنٹ کا استعمال کرتے ہوئے زندگیاں بچائی ہیں، کئی حملوں کو روکا ہے جن میں انھیں موبائل فونز کی معلومات تک رسائی دی گئی تھی۔