وزیراعظم محمد نواز شریف کا اپنے اور اپنے خاندان کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں اعلی سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ

کمیشن اپنی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور ان الزامات میں کتنا وزن ہے، گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والے اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں، یہ عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزق حلال کمائیں تو بھی تنقید اور اگر بیرون ملک محنت کرکے اپنا کاروبار قائم کریں اور چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پہ کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پر رکھتے وزیراعظم محمد نواز شریف کا قوم سے خطاب

منگل 5 اپریل 2016 22:13

اسلام آباد ۔ 5 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔05 اپریل۔2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جواپنی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور ان الزامات میں کتنا وزن ہے، میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں، یہ عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزق حلال کمائیں تو بھی تنقید اور اگر بیرون ملک محنت کرکے اپنا کاروبار قائم کریں اور چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پہ کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پر رکھتے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ میں اپنی پوری سیاسی زندگی میں آج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ مجھے ان گزارشات کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کیئے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چند بنیادی حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان الزامات کی حقیقت کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد صاحب نے لاہور سے کاروبار کا آغاز کیا اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی۔ قیام پاکستان تک یہ ایک مستحکم اور مضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا۔ اس کی ایک شاخ ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان میں بھی قائم ہو چکی تھی۔

یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا تھا اور قومی خزانے میں ٹیکسوں کی صورت اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ انہوں نے کہاکہ 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں قائم اتفاق فاؤنڈریز سقوط ڈھاکہ کی نذر ہو گئی۔ اس کے ٹھیک 15 دن بعد 2 جنوری 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں قائم ہماری اتفاق فاؤنڈریز پر بھی قبضہ کر لیا جو اس وقت مغربی پاکستان میں سٹیل اور مشینری کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی۔

یوں 1936ء سے ہمارے بزرگوں کی محنت، سرمایہ کاری اور جمع پونجی ایک لمحے میں ختم کر دی گئی۔ یہ ظلم و زیادتی ہمارے والد مرحوم کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمزوری پیدا نہ کرسکی۔ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر انہوں نے اﷲ کا نام لے کر ایک بار پھر کمر باندھی اور بھٹو دور ہی میں 18 ماہ کے اندرا ندر 6 نئی فیکٹریاں قائم کرلیں۔ یہ وطن کی مٹی سے محبت ، لگن ، عزم اور ہمت کی ایک ایسی روشن داستان ہے جس کی مثال کم ہی ملے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اتفاق فاؤنڈریز جولائی 1979ء میں ہمیں کھنڈرات کی شکل میں واپس ملی۔ ہمارے والد نے تباہ شدہ مالی حالت والے اس اجڑے ہوئے ڈھانچے کو دوبارہ ایک جاندار صنعتی ادارے کی شکل دی۔ انتہائی مشکل اور ناسازگار حالات میں عزم و ہمت کی اس داستان کا تعلق اس دور سے ہے۔ جب میں نیا نیا یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور میرا یا میرے خاندان کے کسی فرد کا سیاست یا حکومت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔

اس عرصے کے دوران یہ ادارے ملک کی معاشی ترقی میں ایک توانا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی خزانے میں کروڑوں روپے کے ٹیکس محصولات جمع کراتے رہے اس زمانے میں جب ہم سیاست سے کوسوں دور تھے تو بھی ابتلاء اور آزمائش سے گزرنا پڑا اور سیاست میں آنے کے بعد بھی ہم سیاسی اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنتے رہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ میں سے بہت سے خواتین وحضرات کو یاد ہوگا کہ 1989ء میں ہماری فیکٹری کا خام مال لانے والے بحری جہاز ’’جوناتھن‘‘ (اس کا نام جوناتھن) کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہ دی گئی جس سے ہمیں 50 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ1989ء کی بات کر رہا ہوں اس وقت کا 50 کروڑ شاید آج کے 50 ارب سے بھی زیادہ ہو۔ پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں بھی ہمارے کاروبار کی معاشی ناکہ بندی کی گئی اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاؤنڈریز کی چمنیاں ٹھنڈی کر دی گئیں۔ 1999ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جو کچھ ہوا اس سے آپ سب اچھی طرح واقف ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 14 ماہ تک ہمیں جیلوں میں ڈالے رکھا گیا۔

ہمارے کاروبار کو ایک بار پھر تباہ کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن میں ہمار آبائی گھر بھی چھین لیا گیا۔ جہاں ہم، ہمارے والدین اور ہمارے بچے رہتے تھے۔ ہمیں ملک بدر کر دیاگیا۔ساری حکومتی مشینری کو ہمارے کاروبار، بنک کھاتوں، صنعتی یونٹس اور دیگر معاملات کیلئے بے رحمانہ احتساب پر لگا دیا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سال ہا سال تک ہم ایک یکطرفہ احتساب کی پل صراط پر چلتے رہے لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے ہمارے قدم نہ ڈگمگائے۔

ہم قانون اور انصاف کے ہر معتبر فورم سے سرخرو ہو کر گزرے۔ کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہ کیا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ جبری جلاوطنی کے ایام میں ہمارے والد محترم نے ایک بار پھر مکہ معظمہ کے قریب سٹیل کا ایک کارخانہ لگایا جس کیلئے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا۔ چند برس بعد یہ فیکٹری تمام اثاثوں سمیت فروخت کردی گئی اور یہ وسائل میرے بیٹوں حسن اور حسین نے اپنے نئے کاروبار کیلئے استعمال کئے۔

میں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حسن نواز 1994ء سے لندن میں مقیم ہے جبکہ حسین 2000ء سے سعودی عرب میں رہائش پذیر ہے۔ دونوں ان ممالک کے قوانین اور قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزق حلال کمائیں تو بھی تنقید اور اگر بیرون ملک محنت کرکے اپنا کاروبار قائم کریں اور چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں۔

میں صرف اتنا کہوں گا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پہ کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پر رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مختلف ادوار میں اتفاق فاؤنڈریز کی مکمل تباہی کیلئے بار بار کے حملوں کے باوجود میرے خاندان نے واجب الادا قرضوں کی ایک ایک پائی ادا کی جس کی مالیت تقریباً پونے چھ ارب روپے بنتی ہے۔

ہمارے خاندان نے اصل زر یا مارک اپ کا ایک پیسہ بھی کبھی معاف نہیں کرایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے تو وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہ تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس منظر واضح ہو گیا ہو گا، میں نے اس سفر کے تمام اہم مراحل سے آپ کو آگاہ کر دیا ہے صرف اتنا مزید کہہ دوں کہ حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر ہوتے ہوئے میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن انتہائی مختصر طور پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا عہد کر رکھا ہے، میری تمام تر توجہ اس عہد پر مرکوز ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہر روز الزامات کی یلغار کرنے والوں کو جواب دوں اور وضاحتیں پیش کروں۔ میں الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن اپنی توانائیاں اس کی نظر نہیں کرنا چاہتا۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ میرے بعض رفقاء کا مشورہ تھا کہ چونکہ میری ذات پر کوئی الزام نہیں ہے اور یہ کہ میرے دونوں بیٹے بالغ اور اپنے معاملات کے خود نگہبان ہیں اس لئے مجھے اس معاملے سے الگ رہنا چاہیے، بعض رفقاء کا خیال تھا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ کچھ رفقاء کا کہنا تھا کہ میری ذات یا میرے خاندان کے کسی فرد پر کسی غیر قانونی یا ناجائز کام کا کوئی الزام نہیں لگا اس لئے مجھے اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں لیکن میرے عزیز اہل وطن میں چاہتا ہوں کہ اصل حقائق قوم کے سامنے آ جائیں اور ہر پاکستانی الزامات کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج میں نے ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے یہ کمیشن اپنی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے۔ میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔