پنجاب اسمبلی:ڈیموکریسی پر بیوروکرسی حاوی ، وزیر قانون کی چیف سیکرٹری سے ’ریکوئسٹ‘ پارلمانی سیکرٹریوں کی عدم دلچسپی ، سپیکر کا نوٹس ‘اپوزیشن کا احتجاج ، نوازشریف کے جاں نثاروں کی تعداد گیارہ سے بڑھ کرتیرہ ہوگئی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 12 اپریل 2016 22:21

پنجاب اسمبلی:ڈیموکریسی پر بیوروکرسی حاوی ، وزیر قانون کی چیف سیکرٹری ..

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-رپورٹ؛ محمد نواز طاہر۔12اپریل۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں حکومتی ڈیموکریٹک اور بیوروکریٹک اختیارات میںبیوروکریسی بظاہر ڈیموکریسی پر حاوی رہی یہاں تک کہ کابینہ کے طاقتور رکن قراردیے جانے والے قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر رانا ثنا اللہ نے بھی چیف سیکرٹری کیلئے انتظامی حکم کے بجائے ریکوئسٹ کا لفظ استعمال کیا جبکہ پارلیمانی سیکرٹریوں کی ایوان کی کارروائی میں عدم دلچسپی غالب رہی جس کا نوٹس لیتے ہوئے سپیکر نے انہیں ایوان میں موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور اپنے عملے کو بھی ہدایت کی کہ وزراءاور پارلیمانی سیکرٹریوں کو اسمبلی بزنس کے بارے میں کم از کم دو روز قبل مطلع کیا جائے ۔

سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں منگل کے روز بھی ایوان متعدد پارلیمانی سیکرٹرءموجود نہیں تھے جن کی وجہ سے ان سے متعلق بزنس معرضِ التوا میں رکھنا پڑا ، اجلاس کے اختتام سے پہلے سپیکر نے کہا کہ تمام پارلیمانی سیکرٹریز سے گزارش ہوگی کہ جن کے محکموں کے بارے میں سوال یا بزنس ہو تا ہے انہیں میرا آفس مطلع کرتا ہے اس کے باوجود نہ آنا افسناک ہی کہا جاسکتا ہے ، انہیں ایوان میں اپنی حاجری یقینی بنانا چاہئے جس پر وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا کہ اس ایوان نے مل کر اسمبلی کے قواعدوضوابط میں ترمیم کی تھی تاکہ اسمبلی کی ورکنگ بہتر ہو اور اس میں زیادہ سے زیادہ اور خاص طور پر پارلیمانی سیکرٹریوں کا کردار فعال کرنے سے محکموں کی کارکردگی بھی بہتر ہو اس لئے سبھی کو اس پر عمل کرنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ میں ایدمنسٹریٹو سیکرٹریز اور چیف سیکرٹری سے بھی ’ریکوئسٹ‘ کروں گا اور آپ بھی پارلیمانی سیکرتریوں کو کھانے یا چائے پر مدعو کریں تاکہ ان کی ورکنگ سے متعلق امور پر بات کی جاسکے ۔ واضح رہے کہ پارلیمانی سیکرٹری سرکاری محکموں کے عدم تعاون اور دفاتر و عملہ نہ ہونے کا شکوہ بھی کرچکے ہیں ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پارلیمانی ڈیموکریٹک سسٹم میں پارلیمانی امور کا وزیر ایوان میں وزیراعلیٰ کی غیر موجودگی میں ایک طرح کا وزیر اعلیٰ ہی ہوتا ہے جس نے انتظامی افسروں کو حکم یا ہدایت جاری کرنا ہوتی ے لیکن وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے ریکوئسٹ کے الفاظ نے بیورو کریسی کے حاکمانہ رویے کی نشاندہی کردی ہے جس کی شکایات حکومتی اور اپوزشن ارکان کم و بیش روزانہ کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے ایوان میں قائدِ حزب اختلاف میاں محمودالرشید کو پانامہ لیکس کے معاملے پر آﺅٹ آف ٹرن تحریکِ التوا پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن نے ایوان میں ” گو نواز گو ‘ اور حکومتی ارکان نے ’نوازشریف تیرے جان نثار ، بے شمار ‘ اور سیتا وائٹ کے حوالے سے بیس منٹ تک احتجاج اور نعرہ بازی کی اس دوران اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ڈائس کے سامنے دھرنا دیکر بھی احتجاج کیا ۔

اپوزیشن ارکان نے ایجنڈے کی کاپیوں کے بھونپو بنا کر آوازیں نکالیں تو حکومتی رکن میاں منیر نے اپنی نشست سے اٹھ کر کچھ ارکان کی جھولی میں باجے بجانے والو کو’ ویل‘ دینے کے انداز میں سو سو روپے کے کرنسی نوٹ بھی ڈالے جس کے جواب میں اپوزیشن اراکین مسکراتے رہے ، بعد ازاں اسمبلی کے عملے نے یہ نوٹ اٹھا کر اتھارٹی کے حوالے کردئے ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپوزیشن ارکان کے نعروں کے جواب میں حکومت کی طرف سے ’ نواز شریف تیرے جاں نثار ، بے شمار بے شمار ‘ جیسے لگاتے ہوئے نعرے آٹھ خواتین اور ایک پارلیمانی سیکرٹری سمیت گیارہ ارکان نے لگائے بعد میں ان کی تعداد بڑھ کر تیرہ ہوگئی جبکہ دیگر حکومتی ارکان کی بڑی تعداد خاموش رہی اور کچھ مسکراتے رہے ۔

غیر سرکاری ارکان کی کارروائی کے دوران ایوان نے اتفاقِ رائے سے چار قراردادیں بھی منظور کیں ۔ ان میں سے قائدِ حزبِ اختلاف میاں محمود الرشید کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی تشکیلِ نو میرٹ پر کی جائے سعدیہ سہیل رعنا کی قرارداد میں بلا لائسنس میڈیکل سٹور چلانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا جبکہ سبطین خان کی قرارداد میں حالیہ بارشوں اور ذالہ باری س فصلیں متاثر ہونے پر کاشتکاروں کیلئے امدادی پیکیج کا مطالبہ کیا گیا ، حکومتی رکن ڈاکٹر نجمہ افضل خان کی قرارداد میں کیا گیا کہ ” اس اوان کی رائے ہے کہ صوبے ک تمام یونیورسٹیوں کے شعبہ ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے تحقیق کو شامل کیا جائے کہ پاکستان کا اقوامِ عالم میں کس طرح سافٹ امیج پیش کیا جاسکتا ہے “۔

اجلاس میںزیرو آور ‘ کے دوران حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین نے کرنسی کا کاروبار کرنے والے مالیاتی اداروں کے منیجروں کیخلاف پولیس کی کارروائی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ پولیس ان اداروں پر کارروائی کرکے سٹیٹ بینک کے قواعد کی خلاف ورزی کرہی ہے جس پر محکمہ داخلہ کے پارلیمانی مہر اعجاز اچلانہ نے بتایا کہ ایک آردننس کی روشنی میں یہ کارروائی کی جارہی ہے جبکہ اس آردننس کے مطابق ضلعی سطع پر سٹیک ہولڈرز اور تاجروں کو نمائندگی بھی حاصل ہے جسے شیخ علاﺅالدین نے جھٹلا دیا اور کہا کہ میں ان اداروں کی تنظیم کا صدر ہوں مجھے یا کسی اور نمائندے کو ابھی تک آن بورڈ نہیں لیا گیا جبکہ تاجر نمائندے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ جرابیں بیچنے والا مالیاتی اداروں کا نمائندہ بھی ہو ، ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو کسی چیز کا علم نہیں ہوتا وہی لوگ پالیسی بناتے ہیں جس سے خرابی پیدا ہوتی ہے جس پر وزیر قانون نے وضاحت کی کہ مالیاتی اداروں نے بلاشبہ سیکورٹی کے انتظامات کیے ہیں لیکن مختلف واقعات میں ایسی صورتحال بھی سامنے آئی ہے ان اداروں کے الارم کے بٹن تک غیر فعال ملے ، رکشہ ڈرائیوروں کو سیکورٹی گارڈ رکھا گیا جبکہ وہ بندوق چلانا بھی نہیں جانتا اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی ناقص پائے گئے ۔

سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فول پروف سیکیورٹی اقدامات کا معائنہ کریں ، اس معائنے کے دوران یہ امکان موجود ہے کہ کہ کہیں سیکیورٹی اداروں نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اسلئے وہ اگلے دوایک روز میں اعلیٰ سطحی سیکیورٹی میٹنگ میں شیخ علاﺅالدین اور ان کے کچھ نمائندوں کو مدعو کرلیں گے تاکہ شکایات کا ازالہ ہوسکے اور بہتری کی تجاویز بھی لی جاسکیں اور مناسب ونے پر ان پر عملدرآمد بھی کیا جاسکے کیونکہ عوام کے جان و مال کوسیکورٹی فراہم کرنا حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد اجلاس بدھ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔