وزیر اعظم محمد نواز شریف کے قوم سے خطاب کا مکمل متن

جمعہ 22 اپریل 2016 22:37

وزیر اعظم محمد نواز شریف کے قوم سے خطاب کا مکمل متن

اسلام آباد ۔ 22 اپریل (اُردو پوائنٹ تازہ ترین۔22 اپریل 2016 ) وزیراعظم محمد نوازشریف نے جمعہ کو قوم سے خطاب کیا ان کے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے عزیز اہل وطن السلام علیکم !
آج میں ایک مرتبہ پھر آپ سے مخاطب ہوں اور اس دفعہ نہایت اہم مسئلے پر آپ کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میری ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے میں اس پاکستان میں پیدا ہوا ۔

اسی کی گلیوں میں میرا بچپن ،لڑکپن ، میری جوانی سب یہی گزرا ۔ آپ کی طرح میں نے بھی اس ملک کے سکول ، کالجوں میں تعلیم حاصل کی ۔ یہی میری شادی ہوئی ۔ میری اولاد بھی پاکستان میں پید ا ہوئی ان سب کی پرورش بھی یہی ہوئی ۔ ہمارا پورا خاندان پاکستان کے ساتھ دلوں جان سے پیوستہ ہے ۔

(جاری ہے)

الحمداللہ ، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس مٹی سے اُٹھا ہوں اور ایک دن ایسی مٹی میں واپس چلا جاوٴں گا۔

وطن کی مٹی سے مجھے عشق ہے اور کیوں نہ ہو ۔ اول وآخر پاکستان ہونے کے ناطے میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے سیاست کی اس خارداروادی میں قدم رکھے مجھے کم و پیش 30 برس سے زائد ہوچکے ہیں ان تین دھائیوں میں نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ۔ لیکن اہل وطن ان سب میں سب سے زیادہ تکلیف دے وقت وہ تھا جب مجھے جلا وطن کرکے پاکستان سے دور رہنے پر مجبور کیا گیا ۔

یہ میں اور میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے ان آٹھ برسوں کا ایک ایک لمحہ کس طرح وطن کو یاد کرکے گزرا۔ لیکن پھر خدا وہ وقت بھی لایا ۔ جب میں نہ صرف اپنے وطن واپس آیا۔ بلکہ آپ نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تیسری مرتبہ اس ملک کی خدمت کی ذمہ داری سونپی، میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اور پاکستانی عوام کی بے پناہ محبت جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔

میرے اہل وطن اب آتے ہیں اس معاملے کی طرف جس کو بنیاد بنا کر محض حواس اقدار کی خاطر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاری ہے پانامہ لیکس منظر عام پر آنے کے بعد میں نے فوری طورپر پاکستانی عوام کو اعتماد میں لیا۔ آپ سب کو اعتماد میں لیا اور گو یا کہ میری زات الحمد اللہ کس قسم کا کوئی الزام نہیں ۔ مگر میں نے ایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہونے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایک آواز اور غیر جانب دار کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔

جو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل ہوں ۔ وہ اس معاملے کی پوری جانچ پڑتال کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ اور یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے میرے عزیز اہل وطنوں کہ پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ 22 برس پرانے ہیں اور یہ وہی کیس ہیں جن کی مکمل چھان بین پہلے 90 کی دہائی میں کی گئی ۔ اور اس کے بعد پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت نے باریک بینی سیاس کی چھان بین کی اللہ کے فضل سے بدعنوانی تو دور کی بات کوئی ایک پائی کی غیر قانو نی ٹرانزیکشن ثابت نہیں کر سکا کسی قسم کی کرپشن کک بیک یا کمیشن کا مقدمہ نہیں بناسکے ۔

لیکن اس کے باوجود میں ایک مرتبہ پھر خود کو اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ جمہوری اور مہذب ممالک میں یہی روائیت ہے ہمارے تمام اثاثوں کی تفصیلات انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں ڈکلےئر ہیں ۔ اللہ کے فضل سے میں اور میرا خاندان اور ہمارا کاروبار اس وقت سے ٹیکس دے رہے ہیں ۔ جب کچھ لوگوں کو اس لفظ کا مطلب بھی نہیں آتا تھا ۔

اور یہ بھی ہماری حکومت کا کارنامہ ہے ہم نے پہلی مرتبہ ٹیکس پےئر ڈائریکٹری شائع کی ۔ اور اس کو FBR کی ویب سائٹ پر رکھا تاکہ لوگ خودجان لیں کہ کون کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے تہمت اور بہتان لگانے والوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نواز شریف سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ زرا اپنی آنکھوں سے ہمارے اثاثوں اور ٹیکس کی تفصیلات دیکھو اور اس کے بعد اپنے اس جھوٹ کی معافی خدا سے مانگو ۔

ان لوگوں نے بغیر خدا خوفی کے اس طرح جھوٹ بولا۔ کہ لوگ اس کو سچ سمجھ لیں ۔ مگر پاکستان کی عوام باشعور ہے میں ان کو بتاد ینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی عوام باشعور ہے۔ انہوں نے ہرا لیکشن میں اس جھوٹ کو اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے شکست دی۔ جس کیلئے میں پاکستانی عوام کو سلام پیش کر تا ہوں ۔ میرے علم میں جب یہ بات آئی کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات ہٹا دی گئی ہیں تو میں نے فوراًوزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب سے کہا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات عوام کے سامنے ہونی چاہیے جنہوں نے یہ معاملہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سامنے رکھا۔

اب آپ دیکھ سکتے ہیں عوامی نمائندوں کے اثاثوں کی تفصیلات دوبارہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر رکھ دی گئی ہیں۔ کیونکہ یہ جاننا عوام کا بنیادی حق ہے مگر جو لوگ بغیر سوچے سمجھے الزامات لگاتے ہیں۔ میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تمھارے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو وہ اس کمیشن کے سامنے پیش کریں ۔ میرا اپنے آپ سے یہ عہد اگر کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر گھر چلا جاوٴں گا عزیز اہل وطن پاکستان کا میڈیا ایک آزاد میڈیا ہے۔

جس کی مثال بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم ہی ملتی ہے اس میڈیا نے بڑی جدوجہد کے ساتھ اپنے آپ کو آمریت کی زنجیروں سے آزاد کیا ہے میں اپنے میڈیا کے قابل احترام بہن بھائیوں سے ابھی آج ایک درخواست کرتا ہوں کہ خود آپ میں سے کئی لوگ اکثر ایسی بہتان تراشیوں اور جھوٹے الزامات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں میرے آپ سے یہی درخواست ہوگی کہ کسی بھی پاکستانی شہری کے خلاف کوئی بھی الزام شائع یا نشر کرنے سے پہلے ایک لمحہ کیلئے خود کو اس جگہ پر رکھ کر سوچیں۔

اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ آپ کو کیا لکھنا اور بولنا چاہیے ابھی تو کمیشن قائم ہی نہیں ہوا۔ اس کی کاروائی شروع نہیں ہوئی اور کچھ لوگوں نے اپنی عدالت لگا کر فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے۔ کیا ایسا انصاف وہ اپنے مکالمے میں چاہیں گے ۔ لیکن میرے عزیز اہل وطن یہ تو اس سارے مکالمے کا صرف ایک پہلو ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ اس سے کئی گنا اہم ہے جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ہم نے ماضی میں بھی ان سوالوں کا جواب دیاہیں اور اب بھی پوری صراحت کے ساتھ جواب دیں گے۔

کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں منتخب نمائندوں سے سوال پوچھنا عوام کا حق ہیں اور جواب دینا حکمران کا فرض ہیں ۔ مگر کچھ سوال ہمارے بھی ہیں ہمیں بھی ان کا جواب ملنا چاہیے۔ ہم سے سعودی عرب میں فیکٹری کا سوال کرنے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ آخر ہمیں سعودی عرب کس نے اور کیوں بھیجا تھا قانون کی عمل داری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر کال کھوٹٹری میں کس قانون کے تحت پھینکاگیا تھا۔

جب ہمیں جلا وطن کیا گیا تو اس وقت کسی نے سپریم کورٹ کو جگانے کی ہمت کیوں نہیں کی ۔ جب ہمارے کاروبار اور ذاتی رہائش گاہ پر تالے ڈالے گئے تو ماسوائے اِکا دُکا با ضمیر لوگوں کے ان کی زبانوں پر بھی تالے پڑ گئے جو آج نیکی کے پتلے بنے بیٹھے ہیں ۔ سو ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھانے والے ذرا یہ تو بتائیں اس وقت ا ن کی اخلاقی جرأت کہاں گئی تھی جمہوریت کی تعریف سمجھنے والے ذرا یہ تو بتائیں ۔

اس ملک کو دہشت گردی کی بھٹی میں جھونکنے والے فوجی آمر کے پیچھے وزارتِ عظمیٰ کا پروانہ حاصل کرنے کیلئے کون ہاتھ باندھے کھڑا تھا قانون اور اخلاقیات کے حوالے دینے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ آئین کی کونسی شق اور جمہوریت کا کونسا قائدہ پڑھ کر انہوں نے فوجی آمر کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ہم نے تو قید جلاوطنی اور صعوبتیں کاٹ کر نا کردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہم سے پائی پائی کا حساب بھی لیا گیا اور ہم آئندہ بھی حساب دیں گے ۔

میرے عزیز اہل وطن ذرا حساب ان کا بھی حساب ہونا چاہئیے جو آج حساب مانگنے نکلے ہیں ۔آئین توڑنے سے لے کر 17ویں ترمیم تک کا کلنک قوم کے ماتھے پر سجانے کا حساب، سپریم کورٹ کے ججوں سے بندوق کی نوک پر حلف لینے کا حساب، 72ججوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر نے کا حساب ہمارے بہادرکارکنوں پر بد ترین تشدد کرنے کا حساب مجھ پر ہائی جیکنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کا حساب کیا ان سب باتوں کا حساب نہیں مانگا جا نا چاہیے ۔

میرے اہل وطن ان تمام باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ہماری حکومت کرپشن کے حاتمے Good governance اورشفافیت پر یقین رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کے بین الاقوامی ادروں نے بھی ہماری شفافیت governanceکا اطراف کیا ہیں مگر میرے اہل وطن قانون کی عمل داری شفاف حکومت اور اخلاقی ذمہ داری یہ تمام باتیں آئینی جمہوریت کی بلادستی سے جنم لیتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے یہ کہنے والے کہ ہم پرائم منسٹر کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹیں گے آج اُٹھ کر قانون کی بالادستی کا راگ شروع کر دےئے اور جن کے خلاف غیر ملکی عدالتوں نے فیصلے صادر کیے ہوئے ہیں وہ ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھانے آجائیں تاہم جیساکہ پہلے کہا ان تمام باتوں کے باوجود ہم ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کو تیار ہیں ۔

میرے بہنو بھائیو ایک کمیشن اس ملک میں 2014 میں بھی بنایا گیا تھا جس کا کام الیکشن میں منظم دھاندلی کا پتہ لگانا تھا ۔ اور یہ کمیشن سب نے متفقہ طورپر طے کیا تھا کہ بنایا جائے اس کمیشن نے ان تمام الزامات کی پڑتال کی جو کنٹینر پر کھڑے ہوکر لگائے گئے اور اس وقت جوبازاری زبان استعمال کی گئی تھی اس کے آپ میرے اہل وطن سب گواہ ہیں ۔ اُس کمیشن نے اُن تمام الزامات کی جزیات میں جا کر پوری تحقیق کی اور بالآخر اُنہیں جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر رد کر دیا گیا ۔

یہ سب باتیں آپ کے سامنے ہوئی ہیں کیا الزامات لگانے والوں نے اتنی اخلاقی جرأت دکھائی کہ قوم سے معافی مانگتے ۔ہمارا خاندان تو الزامات کے جواب دے گا اور 1972 سے دیتا رہا ہے ۔ جب سب کچھ قومیا لیا گیا تھا اور ہماری جیب میں ایک دمڑی بھی نہیں تھی اُس وقت۔ ہم تو اس کا حساب دیں گے مگر دھرنے کی سرکس کے دوران اس ملک کو جو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچا اُس کا حسا ب کو ن دے گا ، اس ملک کی قوم، خاص کر کے نوجوان نسل کو ہمارے اداروں کی جو بدنما تصویر کشی کی گئی اُس کا حساب کون دے گا؟ میں تو اُس تنخواہ کا بھی میرے بھائیو اور بہنوحساب دینے کو تیار ہوں جو میں نے بطورِ وزیراعظم کبھی لی ہی نہیں ۔

مگر جن لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں اور وہ پرائیویٹ جہازوں میں پھرتے ہیں اُن کاحساب کون لے گا ؟ دھرنے کے دوران جنہوں نے حکو مت کے جانے کی پیش گوئیاں کیں اور پھر جھوٹے ثابت ہوئے ان سے حساب کون لے گا؟ جن لوگوں نے بہتان تراشی اور جھوٹ کی روایت اس ملک میں ڈالی اُس کا حساب کون ان سے لے گا ؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اے مومنو اگر کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو مبادہ کہ کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے ، یہ قرآن میں لکھا ہوا ہے ۔

تو میرے عزیز اہل وطن دراصل یہ وہ فاشسٹ رو یہ ہے جس کے تحت کچھ لوگ ملک کو تبا ہ کرنے کے در پر ہیں ۔انہیں علم ہے کہ جب ہماری حکومت اللہ کے فضل سے پانچ سال مکمل کرے گئی تو اپنے وعدے کے مطابق ہم معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہوں گئے۔ یہ وجہ ہے کہ حوثِ اقتدار کے مارے لوگوں کو اپنی شکست دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے ۔ مجھے اس بات کا رنج نہیں کہ میری اور میرے بچوں کی ناجائز کردار کشی کی گئی، جتنا دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ ملک وقوم کا قیمتی وقت برباد کر کے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

یہ ایک نا قابل ِ تلافی جرم ہے جس کا حساب میرے اہل وطن آپ کو لینا ہے۔ دراصل یہ لوگ چاہتے ہیں کے عوام کے مثائل حل کرنے کے بجائے اپنا سارا وقت ان جھوٹے الزامات کا جواب دینے میں صرف کر دوں جس سے نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہو گا اور بدقسمتی سے یہ اُن کا Visionہے ۔ جبکہ ہمارا Vision ایک محفوظ ، خوشحال اور روشن پاکستان ہے۔ ہم نے ازخود انکوئری کمشن بنانے کا اعلان کیا جبکہ عوامی سطح پر ایسا کوئی مطالبہ بھی نہیں تھا اُس کے باوجود اُس دن سے لے کر آج تک کمشن کی رہ میں روڑے اٹکائے جا ررہے ہیں معزز ججوں کی کردار کشی کر کے انہیں بدنام کیا جارہا ہے تاکہ کوئی اس کمشن کی سربراہی قبول نا کرے اور اس کے بعد دھرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

لیکن میں اُن تمام لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اِن گیداڑ بھپکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں ۔ الحمداللہ میں نے کبھی خوف زدہ ہو کر سیاست نہیں کی ہے ۔ میں زندگی میں اپنے خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا پر میر غیر متزلزل ایمان ہے جس کی وجہ سے مجھے قوم کی تیسری مرتبہ خدمت کا موقع ملا ۔ مجھے پاکستان کی باشعور عوام نے منتخب کیا ہے اور میں اللہ کے بعد صرف اور صرف پاکستان کی عوام کو جواب دے ہوں ۔

اسی لیے آج میں آپ کے سامنے ایک اہم اعلان کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس کو خط لکھوں گا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمشن تشکیل دیں تاکہ جو لوگ بہتان تراشیوں کی حد پر اُترے ہوئے ہیں وہ اس اقدام سے ہماری شفافیت بھی دیکھ لیں ۔ میں اس کمشن کی سفارشات قبول کروں گا ۔مگر میرے عزیزاہل وطن اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہو ئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کرتے ہیں قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں گے؟ اور کیا ا ٓپ انہیں معاف کر دیں گئے ؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ پاکستان پائندہ باد

متعلقہ عنوان :