وزیراعظم صلیب پر چڑھ جائیں تو باقی سب بھی بخشے نہیں جائیں گے، سرمایہ دارانہ نظام کے لوگ معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرز کا اپناحکمرا ن چاہتے ہیں ، ٹی او آرز جیسے لفظ میں قوم کو الجھایا جارہا ہے ، احتساب اور تحقیقات کرو کے نعرے لگانے والا خود چور نکلا ، یوٹرن کے نشان کی بجائے اس کی تصویر لگائی جائے تو لوگ خود سمجھیں گے کہ یو ٹرن لینا ہے ، دھرنے کے دوران اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے ،یہودی لابی کے ایجنٹ کو سپورٹ کرنے اور آف شور کمپنی کی ملکیت سب کے سامنے ہے ، پانامہ لیکس سے عالمی سرمایہ داروں کی چھالوں اور نیٹ ورک کا پتہ چل چکا ہے ،جماعت کے 100 سال پورے ہونے پر پشاور میں اگلے سال سات اور آٹھ اپریل کوعظیم الشان عالمی اجتماعی کا انعقاد کیا جائے گا

قائد جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا ورکرز کنونشن سے خطاب

جمعرات 19 مئی 2016 22:22

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 مئی۔2016ء ) قائد جمعیت علماء اسلام (ف) اور کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم صلیب پر چڑھ جائیں تو باقی سب بھی بخشے نہیں جائیں گے، سرمایہ دارانہ نظام کے لوگ پاکستان میں ایک سرمایہ دار کو ہٹا کر اپنے ہی نیٹ ورک سے معین قریشی اور شوکت عزیز کے طرز پر ایک اور سرمایہ دار حکمران لانا چاہتے ہیں ، ٹی او آرز جیسے لفظ میں قوم کو الجھایا جارہا ہے ، احتساب اور تحقیقات کرو کے نعرے لگانے والا خود چور نکلا ، یوٹرن کے نشان کی بجائے اس کی تصویر لگائی جائے تو لوگ خود سمجھیں گے کہ یو ٹرن لینا ہے ، لیڈر اخلاقی ، نظریاتی اور مالیاتی کردار کی بنیاد پر عوام سے بات کرتا ہے ، دھرنے کے دوران اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے ،یہودی لابی کے ایجنٹ کو سپورٹ کرنے اور آف شور کمپنی کی ملکیت سب کے سامنے ہے ، جماعت کے سو سال پورے ہونے پر پشاور میں اگلے سال سات اور آٹھ اپریل کوعظیم الشان عالمی اجتماعی کا انعقاد کیا جائے گا ، پانامہ لیکس سے عالمی سرمایہ داروں کی چھالوں اور نیٹ ورک کا پتہ چل چکا ہے ۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں منعقدہ ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل و ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفورحیدری ، صوبائی امیرمولانا فیض محمد، صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندر ایڈووکیٹ ، رکن قومی اسمبلی مولاناامیر زمان ، ضلع کوئٹہ کے امیر ولی محمدترابی ،عبدالواحدصدیقی ، شکور خان غبیزئی ودیگر نے بھی اظہار خیال کیا ۔

مولانافضل الرحمن نے کہا کہ انہوں نے کہاکہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی ہے ہم کسی جاگیردار ، سرمایہ دار ، خان ، نواب ، وڈیرے کے دشمن نہیں بلکہ ان کے رویوں کے دشمن ہیں ۔ سرمایہ کے طرز استعمال اور غریب کے ساتھ حیوان سے بدتر سلوک کے ہم دشمن ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آج کل پانامہ لیکس کا بڑا چرچہ ہے ورکر کنونشن میں موجود لوگ پانامہ لیک یا پھر آف شور کمپنی کے متعلق نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاجامہ لیک ہے۔

انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی سے متعلق نہیں جانتا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آف شور کمپنی اس کی رجسٹریشن اور پیسہ کیسے جمع کیا جاتا ہے میں نے تو یہ چیزیں خواب میں بھی نہیں دیکھی ۔ انہوں نے کہاکہ پانامہ لیکس میرا اور جمعیت کا مسئلہ نہیں تاہم اسے ایک خاص زاویہ سے دیکھ کر نتیجہ اخذ کررہے ہیں ہمیں استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام اور ان چند خاندانوں کے خلاف جنگ لڑنے کو سمجھنا ہوگا ۔

عالمی سرمایہ داریت کا نیٹ ورک کیا ہے اور کس طرح سے سرمایہ کے بل بوتے پر نیٹ ورک میں شامل لوگ حکمرانی کرتے ہیں کو سمجھنا ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ معین قریشی کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ تھے اور نہ ہی ان کا نام ووٹ لسٹ میں درج تھا لیکن راتوں رات یہ تمام دستاویزات انہیں جاری کرکے یہاں حکمران بنایا گیا جو حکومت کرنے کے بعد واپس چلا گیا ہے ۔

شوکت عزیز کی بھی مثال ایسی ہی ہے اس سے پہلے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیراعظم بنایا گیا ۔ پانامہ لیکس سے ہمیں ان کے پس پشت قوتو ں اور ان کے مقاصد کے متعلق معلوم ہوچکا ہے ہمیں سرمایہ داریت کے عالمی نیٹ ورک کا پتہ چل گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بڑی چالاکی کے ساتھ سیاسی بھون چال پیدا کی جارہی ہے کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہیے ۔

تحقیقات سے قبل کیسے کسی کو مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں ایک سرمایہ دار کو ہٹا کر اسی نیٹ ورک کے کسی دوسرے فرد کو حکمران بنایا جائے سرمایہ دار اتنے دلیر ہیں کہ جس بیوروکریٹ کے گھر سے بلوچستان میں 67 کروڑ روپے ملے وہ کہتاہے کہ اس کے گھر سے 67 کروڑ نہیں بلکہ ڈھائی ارب روپے نکالے گئے تھے ۔ حقیقت یہ ہ یکہ یہاں 40 ارب روپے پکڑے گئے ہیں ۔

ان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم کو صلیب پر چڑھا کر سب بخشے نہیں جائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ حزب اختلاف نے پہلے پانامہ کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور ججز پرمشتمل کمیشن کا مطالبہ کیا جسے حکومت نے مان لیا لیکن ان کلینڈروں نے کہا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ انہوں نے بلوچستان سے ریٹائرڈ ایک ایسے بیوروکریٹ کی سرپرستی میں معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جس کا دوران ملازمت اور بعد از ملازمت دونوں متنازعہ رہے ہیں ۔

انہوں نے تمام عمرمیرٹ کے مطابق فیصلے کرنے والے عزت دار ججز کو متنازعہ بنادیا بعد ازاں حزب اختلاف نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا کہا پھر کہا کہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیے جس پر حکومت نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ آفیسران کی نشاندہی کرے حکومت کمیشن بنادے گی۔ آخرمیں حزب اختلاف نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جسے حکومت نے مانا تو اب ٹی آو آرز پر جھگڑا کھڑا کردیا گیا ہے یہ ایسا الفاظ ہے جس کے متعلق قوم نہیں جانتی ۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ نے پہلے وزیراعظم کا نام آف شور کمپنیوں سے متعلق ویب سائٹ پر شائع کیا لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کا نام آف شور کمپنی والوں کے لسٹ میں نہیں تاہم جو لوگ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں ان میں سے کئی کے نام اس میں شامل ہیں جس سے ثابت ہوا کہ چور چور کہنے والے خود چور نکلے۔

چور کو ہم چور کہیں گے ایک چور کیسے چور کو کہہ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ شاہراہوں پر یوٹرن کے نشان کی بجائے اس سیاستدان کی تصویرلگائی جائے جو ہر مسئلے پر یوٹرن لیتے ہیں لوگ ان کی تصویر دیکھ کر یوٹرن لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ سیاستدان نے مجھے نوٹس بھیجنے کا کہا اور کہا کہ وہ میرے خلاف عدالت جائیں گے میں نے کہا کہ صدبسم اﷲ آپ جاؤ آپ کا کچا کٹا میں عدالت میں کھول دوں گا ۔

انہوں نے کہاکہ کوئی بھی لیڈر اخلاقی ، نظریاتی اور مالیاتی کردار کی بنیاد پر قوم سے بات کرتا ہے اس لیڈر کا اخلاقی چہرہ تو دھرنے کے دوران ہی لوگوں کے سامنے آیاجس نے قوم کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر اسلام آبادمیں جنسی آلودگی پھیلائی ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ لیڈر کے سالے کے متعلق میں نے کہاکہ تھا کہ یہ انگلینڈ میں اسرائیل کیلئے کام کررہے ہیں جو ثابت ہوا کیونکہ انہوں نے لندن میں میئر شپ کے عہدے کے لئے مہم کے دوران جوبینر پیچھے آویزاں کیا اس پر سی ایف آئی یعنی ( کنزویٹیو فرنٹ آف اسرائیل ) درج تھا۔

ہمارے بھڑکیں مارنے والے سیاستدان نے انگلینڈ جا کر اس یہودی کی مہم میں حصہ لیا اور ایک مسلمان و پاکستانی کی مخالفت کی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کی منظر عام پر آنے کے بعد تحقیق کرو تحقیق کرو کہہ کر اچلنے والے کی خودآف شور کمپنی نکلی تو کہنے لگا کہ ٹیکس سے بچنے کے لئے انہوں نے ایسا کیا۔ لوگوں کو ٹیکس جمع کرنے کی ترغیب دینے والا خود ٹیکس چور نکلا ہمیں ایسے مخلوق سے واسطہ پڑا ہے عالمی قوتیں اس طرح کے لوگ ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہیں ہمیں نظریہ کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے نظریاتی اساس کی بنیادپر تحریک کو آگے بڑھاناہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بھی 2 فیصد سرمایہ دار 98 فیصدلوگوں پر سرمایہ کے بل بوتے پر حکمرانی کررہے ہیں اسی لئے وال سٹریٹ میں لوگ مظاہرے کرکے اسلام بینکاری کا مطالبہ کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ اسلام سرمایہ کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے اس لئے مغربی قوتیں اسلام کے عادلانہ نظام کی مخالفت کررہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سامراجی قوتیں ہم پر جنگ مسلط کرکے ہمیں ہی جنگجو کہہ رہے ہیں جبکہ ہم پر آگ برسا کر وہ امن کے قیام کے بھی دعوے دار ہیں ہمیں ان سازشوں کے متعلق جاننا ہوگا ۔

جماعت نے سو سالہ مدت پوری کرلی ہے اب ہمارے اکابرین اور بزرگو ں کو بھی اطمینان اور قلبی سکون مل رہا ہوگا کہ انہوں نے جو امانت ہمیں حوالے کی تھی وہ ہم نے نئی نسل کو پہنچادی ہے ، کارکن کمر بستہ ہو کر ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں تاکہ باطل قوتیں بند کمروں کے خلاف بھی کبھی نہ سوچ سکے ، ان کا کہنا تھاکہ جمعیت ایک تاریخ بن چکی ہے جس سے ہمیں حوصلہ مل رہا ہے کہ یہ جماعت نوزائیدہ یاپھر حالات کی پیدا وار نہیں بلکہ یہ سو سال پورے کررہی ہے جس پر میں کارکنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ ہم کس اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ مولانا حسین احمد ،شیخ الہند اور شاہ ولی اﷲ کے عقیدے اور نظریہ کے تسلسل والا اسلام ہے 1857 اور اس سے پہلے آزادی کی جنگیں لڑی گئیں دارالعلوم دیوبندکاپہلا طالب علم اور فاضل محمود الحسن تھے جو خلافت عثمانیہ کی ناکامی کے بعد 1916 ء میں پابند سلاسل کئے گئے اس دورا ن مفتی کفایت اﷲ نے جمعیت کا خاکہ تیار کیا جب مولانا محمود الحسن 1919ء میں رہا ہوئے تو ان کے سامنے اس کا خاکہ پیش کیا گیا جنہوں نے اس خاکے سے اتفاق کرتے ہوئے جمعیت کی بنیاد رکھی ۔

انہوں نے کہاکہ تحریک آزادی کے لئے جماعت کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ، ہم اپنی تاریخ کو زندہ سلامت امانت اور دیانت کے ساتھ نوجوانوں کے حوالے کریں گے اب استعمار براہ راست ریاستوں کو کالونی نہیں بنا سکتا بلکہ وہ قوموں کی معیشت پر قبضہ کرکے راج کرتا ہے سامراج تو اسی کو ہی کہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان کی بلوچستان میں کافی عرصے بعد کارکنوں سے ملاقات ہورہی ہے یہ اجتماع محض اجتماع نہیں بلکہ یہ رب کی رحمت ہے آج بلوچستان میں جمعیت سب سے بڑی مذہبی،سیاسی اور جمہوری قوت کے طور پر عوام کے سامنے موجود ہیں بلکہ اسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔

پارٹی کی مقبولیت اور کارکنوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ رب کی تائید غیبی کی بدوولت ممکن ہوا ہے ہم پارٹی کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر اگلے سال سات آٹھ اپریل کو پشاور میں عالمی اجتماع کا انعقاد کریں گے ۔