بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی کراچی میں جائیداد کے حوالے سے تحقیقات کو وسعت دے دی گئی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 26 جون 2016 10:01

بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی کراچی میں جائیداد ..

کراچی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26جون۔2016ء) بلوچستان کے معطل سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی کراچی میں جائیداد کے حوالے سے تحقیقات کو وسعت دے دی گئی۔ کریک لین تھری ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کے فیز 7 میں واقع ایک گھر میں موجود دو سیکیورٹی گارڈز سے تفتیش کی گئی، اس گھر پر کوئی نمبر درج نہیں ہے اور اسے حال ہی میں خریدا گیا ہے اور یہ معطل سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی ملکیت ہے۔

گزشتہ دنوں اس گھر پر تفتیش کرنے کیلئے جانے والی ٹیم قومی احتساب بیورو کی تھی جو ان دنوں کرپشن کیخلاف کافی متحرک ہے۔عینی شاہدین کے مطابق تفتیشی افسران سیدھا گھر کے اندر داخل ہوگئے، انہوں نے نجی گارڈز سے چند سوالات بھی کیے۔ایک گارڈ نے نیب کے سرچ آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ افسران اپنے ساتھ ایک مرسڈیز لے گئے، یہاں پہلے گارڈز موجود نہیں تھے اس لیے افسران نے ہم سے پوچھ گچھ کی۔

(جاری ہے)

گارڈ نے بتایا کہ انہوں نے کسی کو حراست میں نہیں لیا اور چند سوالات پوچھنے کے بعد چلے گئے تھے۔نیب کے افسر ضمیر احمد عباسی نے چھاپے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مرسڈیز بینز 2012 ماڈل کو فیز 7 کی ایک رہائشی عمارت سے قبضے میں لیا گیا ہے جبکہ فیز 6 میں ایک اور گھر سے ہنڈا سٹی گاڑی برآمد کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ یہ گاڑیاں ہم نے کینٹ اسٹیشن کے قریب نیب کے ہیڈکوارٹرز میں رکھی ہیں جنہیں جلد کوئٹہ بھیج دیا جائے گا۔

فی الحال نیب کوئٹہ اس مالی اسکینڈل کی تحقیقات کی سربراہی کررہی ہے جس میں سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور سابق مشیر میر خالد لانگو کے نام شامل ہیں۔رواں برس مئی میں نیب نے مشتاق رئیسانی کے کوئٹہ کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد کیے تھے جس کے بعد 6 مئی کو انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔کراچی میں نیب کے افسران سہولت کار یونٹ کے طور پر معاونت فراہم کررہے ہیں تاکہ مزید جائیدادوں کا پتہ لگایا جاسکے اور جو بھی چیز برآمد ہو اسے کوئٹہ ہیڈکوارٹر بھیجا جائے۔

یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کراچی کے ڈی ایچ اے میں تقریباً 12 گھر پائے گئے ہیں تاہم کوئٹہ سے نیب کے ڈائریکٹر جنرل کے ترجمان نے اس دعوے کو مسترد کردیا۔انہوں نے کہا کہ بیورو نے پانچ گھروں پر چھاپے جن کا تعلق بیک وقت دو عہدوں پر کام کرنے کے الزام میں گرفتار سلیم شاہ، سابق مشیر خالد لانگو اور سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی سے ہے اور یہ گھر ڈیفنس فیز 5، 6، 7 اور 8 میں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ گھر ایک ساتھ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اور ان تمام گھروں کا تعلق مشتاق رئیسانی سے نہیں، ظاہر ہے کہ مشتاق رئیسانی نے انہیں اپنے نام سے نہیں خریدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم گواہوں اور گرفتار ملزمان کی مدد سے مزید تحقیقات کررہے ہیں اور اس کیس میں مزید انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے۔ترجمان نے مرسڈیز اور ہنڈا سٹی گاڑیوں کی برآمدگی کی بھی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے گھر سے بڑی تعداد میں دستاویز بھی ملے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے زیادہ نہیں بتایا۔

ذرائع کے مطابق ان دستاویز میں پرائز بانڈز، جائیداد کے کاغذات وغیرہ شامل ہیں اور نیب افسران ان کے درست ہونے کی تحقیق کررہے ہیں۔نیب کے ایک اور افسر نے بتایا کہ سلیم شاہ کے اعترافات کے بعد ان جائیدادوں کے بارے میں پتہ چلا اور نیب کے افسران کو بھی ابھی یہ پوری طرح نہیں معلوم کہ ابھی مزید کتنے گھر ملیں گے۔افسر نے کہا کہ ابھی تک 12 گھروں کی نشاندہی ہوچکی ہے اور تحقیقات کی جارہی ہیں کہ آیا ان تمام کا تعلق مشتاق رئیسانی سے ہے یا اس میں دیگر افراد بھی ملوث ہیں۔

ایک ہفتے قبل نیب نے خیابان اقبال اسٹریٹ 20 میں واقع خالد لانگو کا ایک بنگلہ دیل کردیا تھا، ایک پڑوسی نے بتایا کہ یہ گھر رواں برس کے آغاز میں خریدا گیا تھا۔اس نے بتایا کہ خالد لانگو کے گھر کے باہر موجود گارڈز علاقہ مکینوں کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور آئے دن کسی نہ کسی سے جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔پڑوسی نے مزید کہا کہ یہاں ہر گھر میں گارڈز موجود ہیں تاہم خالد لانگو کے گارڈز گھر کے باہر ڈیرہ جمائے بیٹھے رہتے ہیں اور آنے جانے والی خواتین کو گھورتے ہیں، اس حوالے سے کئی شکایتیں بھی کیں لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔

ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی نے اپنے علاقے میں پائے جانے والے گھروں کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، ڈی ایچ اے کے ترجمان میجر اورنگزیب نے کہا کہ نیب نے ڈی ایچ اے سے مشاورت کے بغیر چھاپے مارے، ہمیں ان گھروں اور ان کے مالکان کے حوالے سے کچھ نہیں معلوم۔کراچی ڈی ایچ اے کے سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم اظہر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان گھروں پر مشتاق رئیسانی پ رچلنے والے کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں چھاپے مارے گئے۔انہوں نے کہا کہ ان گھروں کے مالکانہ حقوق اور دیگر معاملات کی تصدیق سندھ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ سے کی جانی چاہیے، ڈی ایچ اے کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں۔

متعلقہ عنوان :