پنجاب اسمبلی، ضمنی بجٹ پر بحث ، حکومت کی تعریفیں اور تنقید

پنجاب حکومت کئی محکموں میں اربوں روپے خرچ نہ کرنے کے باوجود منظوتر شدہ بجٹ سے تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے زائد خرچ کرگئی:اپوزیشن کا تھرڈپارٹی آڈٹ کروانے کا مطالبہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 28 جون 2016 19:42

پنجاب اسمبلی، ضمنی بجٹ پر بحث ، حکومت کی تعریفیں اور تنقید

لاہور (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28جون۔2016ء) پنجاب حکومت کئی محکموں میں اربوں روپے خرچ نہ کرنے کے باوجود منظوتر شدہ بجٹ سے تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے زائد خرچ کرگئی جن کی اسمبلی سے منظوری لینے کا عمل جاری ہے جو بدھ کو مکمل کرلیا جائے گا جبکہ ان زائد اخراجات پر اپوزیشن نے شدید تنقید کی ہے اور حکومت کی فنانشل مس مینجمنٹ اور من مانی قراردی ہے جبکہ کچھ حکومتی اراکین نے زائد اخراجات پر بھی حکومتی کی تعریف اور اپوزیشن پر تنقید ہے اور بعض اراکین نے حکومت کو اپنا مالی’ قبلہ ‘ درست کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

پنجانب اسمبلی نے مالی سال دوہزار پندرہ ، سقولہ کے ضمنی بجٹ پر منگل کو بحث کی جو بدھ کو مکمل کی جائے گی اور اس کی منظور بھی دی جائے گی۔

(جاری ہے)

سپیکر رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں پیر کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس پچاس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو اس وقت ایوان میں تین خواتین سمیت صرف چار ارکان موجود تھے۔ضمنی بجٹ پر بحث کا آغاز پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے کیا اور بجٹ پر عام بحث میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی ساٹھ فیصد سے زائد تقریر دہرادی دی جس کی سپیکر نے بار بار نشاندہی بھی کی۔

شعیب صدیق کا کہنا تھا کہ ضمنی بجٹ کے اخراجات حکومت کی گڈ گورنس کی نفی کرتے ہیں اور یہ واضح ہوتا ہے کہ گڈ گورنس اور بچت کی دعویدار حکومت سالانہ ترقیاتی بجٹ مناسب انداز سے خرچ نہیں کر پائی بلکہ من پسندی پر عمل کیا لیکن کوئی میگا پراجیکٹ مکمل نہیں کیا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن میاں محمد رفیق نے ضمنی بجٹ پر تنقید کی ان کا کہنا تھا کہ ضمنی بجٹ اچھی روایت نہیں لیکن حکومت عام طور پر اس کا سہارا لیا کرتی ہے انہوں نے وزیر اعلیٰ کے صاف پانی پراجیکٹ کی تعریف کی اور استفسار کیا کہ کیا یہ منصوبہ عوام کو بیماریوں سے بچالے گا؟ جبکہ جلدی بیماریاں عام ہوگئی ہیں جن کی اہم وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہم سمیت دیگر عوامل ہیں ، اس لئے تحقیقات کرائی جائیں کی بیماریاں کیوں پھیل رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ماحولیات سفید ہاتھی بنا بیٹھا ہے ، یوں لگتا ہے کہ مجھے شیشے کے بند ڈبوں والی گاڑی کی ضرورت پڑے گی اور وہ وقت بھی دور دکھائی نہیں دیتا جب عوام کو آکسیجن کے سلنڈر بھی دینا پڑیں گے۔ پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے بحث میں حصہ یتے ہوئے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پنجاب حکومت کی ایڈہاک ازم پر پلاننگ کی جاتی ہے۔

انہوں نے بجٹ دستاویزات کا حوالہ دیکر بتایا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این ایک سو بائیس کے ضمنی الیکشن کے موقع پر حکومت نے انتخابی مہم میں اندھا دھند اخراجات کیے ، اچھرہ میں ایک ٹیوب ویل کی تنصیب بھی بجٹ ڈاکومنٹس میں شامل ہے جبکہ اس ٹیوویل کا کہیں وجود ہیں نہیں ہے۔ انہوں نے ان اخراجات کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ میں مختلف محکموں کیلئے بھاری فنڈز مختص کیے لیکن خرچ نہ کیا بلکہ تعلیم ، امن و امان ، ہاﺅسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ، صحت جیسے بنیادی اہمیت کے حامل اداروں کے فنڈز انڈر پاسز اور میٹرو جیسے دوسرے من پسند منصوبوں پر خرچ کردیے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی اقلیتی رکن شہزاد منشی نے حکومت کے منیارٹی کیلئے رکھے جانے والے فندز کی تعریف کی اور اس پر تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جتن فنڈز مختص کیے گئے تھے ، اتنے فنڈز خرچ نہیں کیئے گئے -انہوں نے مینارٹی ایڈوائزری کونسل توڑ کر نئے کونسل تشکیل دینے کا مطالبہ کیا اور انسانی حقوق کی وزارت پر تنقید کرتے ہوئے اس کی کارکرگی صفر قراردی۔

اپوزیشن رکن فائزہ ملک نے بھی حکومتی پالیسیوں اور فناشل مس مینجمنٹ پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت فنڈز کی تقسیم اور اخراجات میں مانی کرتی ہے ، اس من مانی کے بجائے وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے ترجیحات کا تعین کرے۔ انہوں نے ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے پیکیج دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایسے طبقے کو سڑکوں پر آنے کا موقع دینے کے بجائے ان کے مسائل دہلیز پرحل کرنے کیلئے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

حکومتی ارکان راشدہ یعقوب اور طارق مسیح گل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن پر تنقید کی تاہم سپیکر نے مختلف موقع پر انہیں سخت الفاظ استعمال کرنے سے روکا اور بجٹ پر بات کرنے ،کی تلقین کی لیکن وہ سپیکر کی وارننگ سے لاپروا رہے ، ان دونوں نے ضمنی بجٹ پر بات کے بجائے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تعریف کی جبکہ پیپلز پارٹی کی فائزہ ملک نے سپیکر سے شکوہ کیا کہ جب ہم کوئی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس سے روک دیا جاتا ہے ، حکومتی ارکان کے معاملے میں بھی یکساں پالیسی اختیار کی جائے جبکہ اپوزیشن رکن خدیجہ عمر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئیے تعریفیں کرنے والے حکومتی ارکان کو سچ بولنے کی اور حقائق کے مطابق گفتگو کرنے کی نصیحت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کے دور کے منصوبوں پر یا تو کام بند کردیا گیاق ہے اور یا انہیں منصوبوں پر افتتاخی تختیاں لگائی جارہی ہیں۔ بجٹ میں بعض دیگر ارکان نے بھی حصہ لیا ، اجلاس بدھ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔