عراق کی جنگ سے متعلق برطانیہ کے سرکاری انکوائری کمیشن کی رپورٹ آج جاری کی جائے گی

26لاکھ الفاظ پر مشتمل رپورٹ کو مرتب کرنے میں 7سال کا عرصہ لگا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 6 جولائی 2016 15:44

عراق کی جنگ سے متعلق برطانیہ کے سرکاری انکوائری کمیشن کی رپورٹ آج جاری ..

لندن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔6 جولائی۔2016ء) عراق کی جنگ کے متعلق برطانیہ کے سرکاری انکوائری کمیشن کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے رپورٹ کے منظر عام سے قبل کہا ہے کہ ان کو امید ہے کہ ان کی رپورٹ سے مستقبل میں اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت محتاط تجزیے اور سیاسی دانشمندی سے کی جائے گی۔چلکوٹ رپورٹ آج ریلیز کی جا رہی ہے۔

اس انکوائری کا آغاز سات سال قبل کیا گیا تھا۔سر جان چلکوٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اس رپورٹ میں شخصیات اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کو امید ہے کہ اس رپورٹ سے ان 179 برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ کو ان کے سوالات کے جوابات مل پائیں گے جو 2003 سے 2009 کے درمیان عراق میں ہلاک ہوئے۔

(جاری ہے)

سر جان چلکوٹ نے کہا اہم توقع یہ ہے کہ مستقبل میں اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت یا سفارتی کوشش جو اتنی اہم ہو محتاط تجزیے اور مشترکہ سیاسی دانشمندی سے کی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا اس رپورٹ سے بہت سبق سیکھے جا سکتے ہیں لیکن سب سے اہم بات مستقبل کے حوالے سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کو یقین ہے کہ یہ انکوائری رپورٹ ان فیصلوں کی قابل اعتماد عکاسی کرتی ہے جن کے باعث برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ عراق پر حملے میں حصہ لیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ رپورٹ جس کو ایک سال میں مکمل ہونا تھا اور 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے کو سات سال لگے تو سر جان چلکوٹ نے کہا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی۔

لیبر جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی جانب سے برطانوی فوج کو عراق بھیجنے کا فیصلہ 50 سال میں خارجہ پالیسی کا سب سے متنازع فیصلہ تھا۔انکوائری رپورٹ میں 100 گواہوں میں ٹونی بلیئر بھی شامل تھے اور وہ اس انکوائری بورڈ کے سامنے دو بار پیش ہوئے۔چلکوٹ رپورٹ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو پیش کر دی گئی ہے اور ایک بار جب سر جان چلکوٹ اس رپورٹ کے حوالے سے بیان دے دیں گے تو یہ رپورٹ آن لائن موجود ہو گی۔

عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ کو اس رپورٹ تک رسائی پہلے دے دی جائے گی لیکن بہت سے اہل خانہ اس رپورٹ کا بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حقائق پیش نہیں کیے جائیں گے۔عراق میں فوجی مداخلت سے صرف 72 گھنٹے قبل دارالعوام میں ووٹ کیا گیا جس کے خلاف 217 ممبران نے ووٹ دیا جن میں لیبر کے 139 ممبران بھی شامل تھے۔لیبر حکومت کے وزیر خارجہ روبن ک±ک سمیت کئی ممبران مستعفی ہوئے تھے۔ اس مداخلت پر ووٹ ہونے سے قبل لاکھوں افراد نے لندن سمیت کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔

متعلقہ عنوان :