اقوام متحدہ کا حلب میں اڑتالیس گھنٹے کی جنگ بندی کا مطالبہ

حلب میں کم سے کم دو لاکھ پچاس ہزار شہری فاقہ کشی میں مبتلا ہیں کسی بچے اور بالغ کو ایسے حالات میں نہیں رہنا چاہیے،لوگ بد ترین حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، اقوام متحدہ امدادی قافلے اور کارکنان تیار ہیں،امدادی اشیاء بھی ہیں ،صرف لڑائی میں وقفہ درکار ہے، ایگلینڈٹاسک فورس

جمعرات 21 جولائی 2016 23:09

نیویارک( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔21 جولائی ۔2016ء ) اقوام متحدہ نے شام کے محصور شہر حلب میں امدادی اشیاء کی ترسیل کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ حلب میں کم سے کم دو لاکھ پچاس ہزار شہری فاقہ کشی میں مبتلا ہیں۔شام کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ انسانی ہمدردی کی ٹاسک فورس کے سربراہ جان ایگلنڈ نے کہا ہے کہ امدادی ادارے باغیوں کے زیر تسلط مشرقی اضلاع میں زندگی بچانے والی اشیاء بھیجنے کے لیے تیار تھے لیکن تواتر سے ہونے والی شدت پسندانہ کارروائیوں کی وجہ سے امدادی قافلوں کو شہر میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔

ایگلنڈ ٹاسک فورس کے ہفتہ وار اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ ٹاسک فورس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت روس اور امریکا نے کی تھی۔

(جاری ہے)

روس دمشق کا حمایتی ہے جب کہ امریکا چند باغی گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔ انگلینڈ نے کہا، ’’امدادی قافلے اور کارکنان تیار ہیں۔ ہمارے پاس امدادی اشیاء بھی ہیں۔ ہمیں صرف لڑائی میں وقفہ درکار ہے۔‘‘ ایگلنڈ نے امریکا اور روس دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں پر دباؤ ڈالیں کہ ہر ہفتے مشرقی حلب میں اڑتالیس گھنٹے جنگ بندی کی جائے تاکہ وہاں امدادی سامان اور کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی جا سکیں۔

رواں ماہ کی سات تاریخ کو مشرقی حلب تک رسائی اس وقت مکمل طور پر ناممکن ہو گئی تھی جب صدر بشار الاسد کی فوجوں نے آخری سپلائی روٹ کیسٹیلو کی شاہراہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ شام مشن کے لیے ریڈ کراس کی بین الاقوامی تنظیم کی سر براہ ماریانے گیسر، جو حلب میں ایک ہفتہ قیام کر چکی ہیں، نے کہا ،’’بمباری مستقل ہے۔‘‘اقوام متحدہ کا مطالبہ ہے کے غذا کی ترسیل کے لیے شہر میں اڑتالیس گھنٹے کی جنگ بندی کی جائیماریانے نے ایک بیان میں کہا:’’کسی بچے اور بالغ فرد کو ایسے حالات میں نہیں رہنا چاہیے۔

وہاں لوگ بد ترین حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ نیشام میں ایسے اٹھارہ علاقوں کی نشاندہی کی ہے جن میں سے زیادہ تر کا محاصرہ سرکاری فورسز نے کر رکھا ہے۔ ایگلنڈ کے مطابق ان علاقوں میں سے صرف تین کو اس ماہ امداد بھیجی جا سکی ہے۔ جنوب مغربی محصور علاقے مضایا میں گزشتہ برس کے آخر میں درجنوں افراد بھوک کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔

اس برس تیس اپریل کے بعد سے وہاں امدادی سامان کی ترسیل نہیں کی جا سکی اور خیال ہے کہ خوراک اور دیگر امدادی اشیاء اب وہاں ختم ہو گئی ہیں۔ شام میں بحران کا آغاز مارچ 2011ء میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں سے ہوا تھا، جو بعد ازاں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اس خانہ جنگی میں اب تک لگ بھگ دو لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :