نیشنل ایکشن پلان کے 5 ستمبر 2013ء سے آغاز سے اب تک رینجرز نے 7950 افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائیں، پاکستان رینجرز

اتوار 31 جولائی 2016 23:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔31جولائی۔2016ء) نیشنل ایکشن پلان کے 5 ستمبر 2013ء سے آغاز سے اب تک رینجرز نے 7950 افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائیں جن میں 6361 گرفتار افراد کو پولیس اور 221 کو ثبوت کے ساتھ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے حوالے کیاگیا ہے۔ پاکستان رینجرز کے ایک آفیسر کرنل قیصر نے بتایا کہ گرفتار افراد سے رینجرز نے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور اسلحہ بھی برآمد کیا ہے۔

ہم نے 848 ٹارگٹ کلرز بھی گرفتار کئے جنہوں سات ہزار سے زائد افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ تفصیلات انہوں نے گزشتہ روز سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو تفصیلی بریفنگ کے دوران بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار شدگان میں 1236 دہشت گرد، 828 ٹارگٹ کلرز، 403 اغواء برائے تاوان کے ملزمان شامل ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید بتایا کہ 5518 افراد کو ایف آئی آر درج کئے چھوڑا گیا ہے، 1313 افراد نے ضمانتیں کرالی ہیں اور 188 کو سزائیں ہوئی ہیں۔

رینجرز کے حکام نے مزید بتایا کہ ان کارروائیوں کے نتیجہ میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 75 فیصد جبکہ ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کو مزید جاری نہ رکھا گیا تو دہشت گرد گروپوں کے دوبارہاکٹھا ہونے اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم بڑھنے کے خدشات ہیں۔

کمیٹی نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو بھی ہدایت کی کہ سندھ آپریشن پر مانیٹرنگ باڈی کے قیام سے متعلق ڈرافٹ رپورٹ مرتب کرکے کمیٹی کو پیش کرے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو سراہا اور کہا کہ آپریشن کی مانیٹرنگ کیلئے کوئی نگران ادارہ ہونا چاہئے۔ کمیٹی نے زیرحراست قتل پر نظر رکھنے کیلئے انسداد، تشدد، قانون منظور کرنے کی بھی سفارش کی۔

کمیٹی کے اراکین نے کہاکہ پاکستان نے ٹارچر کے خلاف بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں جس پر قانون سازی کرنا بنیادی ذمہ داری ہے۔ رینجرز سندھ کے ایک نمائندے نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت انہیں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خاتمہ کے چار بڑے ٹاسک تفویض کئے گئے ہیں اور اس وقت کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں چھٹے نمبر تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں بڑے دہشت گرد گروپوں کو تباہ کرنے، سیاسی جماعتوں کے عسکری گروپوں کو ختم کرنے، معمول کے جرائم کی روک تھام کیلئے نگرانی کرنے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ بچوں کے اغواء کے واقعات کی صورتحال اتنی خطرناک نہیں ہے جس قدر میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ اس سال جون سے جولائی تک 187 بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات ہیں اور جن میں سے جولائی میں ملنے والی چوبیس اطلاعات شامل ہیں جن میں سے 163 خود بخود گھر واپس جاچکے ہیں اور 28 پولیس نے بازیاب کرائے ہیں۔

متعلقہ عنوان :