افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں موجود 70 فیصد جنگجووں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے جو ملک سے بے دخل کیے جانے کی بناءپر داعش کا حصہ بن گئے۔اعلی امریکی فوجی کمانڈرکی بریفنگ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 1 اگست 2016 14:41

افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں موجود 70 فیصد جنگجووں کا ..

واشنگٹن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم اگست۔2016ء) اعلیٰ امریکی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں موجود 70 فیصد جنگجوو¿ں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے جو ملک سے بے دخل کیے جانے کی بناءپر داعش کا حصہ بن گئے۔افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان ڈبلیو نکولسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا 15 سال سے افغانستان میں لڑ رہا ہے، تاہم ایک درجن سے زائد دہشت گرد گروپ اب بھی یہاں سرگرم ہیں۔

واشنگٹن میں پینٹاگون میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ 'اسلامک اسٹیٹ، خراسان صوبہ میں زیادہ تر ارکان کی اکثریت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہے'، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن ضرب عضب کے دوران ملک سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔

(جاری ہے)

جنرل نکولسن کا مزید کہنا تھا کہ صوبہ ننگرہار میں داعش کے کئی جنگجووں کا تعلق پاکستان کی اورکزئی ایجنسی سے ہے، جنہوں نے رواں برس کے اوائل میں داعش میں شمولیت اختیار کی، انھوں نے یہ بتایا کہ ان جنگجوو¿ں میں سے 70 فیصد ٹی ٹی پی کے سابق اراکین بھی تھے جبکہ متعدد اورکزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پختون ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند عراق اور شام میں اپنے ٹھکانوں سے اپنے انتہا پسند نظریے کو افغانستان اور دیگر ممالک میں منتقل کررہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ داعش امریکا کی جانب سے عالمی طور پر نامزد کی گئی دہشت گرد تنظیموں میں سے صرف ایک ہے، اس کے علاوہ 3 دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی افغانستان میں موجود ہیں۔واضح رہے کہ امریکا نے حال ہی میں ان شدت پسند گروپوں کی کارروائیوں کے باعث افغانستان میں اپنے فضائی حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا، ایئر فورس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں میں ڈرامائی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

امریکی فضائی افواج کے مرکزی کمانڈ کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کرس کارنز نے مذکورہ اخبار کو بتایا کہ رواں سال افغانستان میں سب سے زیادہ کارروائیاں جولائی میں 19 سے 25 تاریخ کے درمیان ہوئیں جب اہداف پر 70 سے زائد مرتبہ بمباری کی گئی۔جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد گروپ ان کے انسداد دہشت گردی مشن میں مرکزی توجہ کا مرکز ہیں، ان کا کہنا تھا کہ داعش اور افغان طالبان کے علاوہ پاکستانی طالبان اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی یہاں کام کررہے ہیں اوران گروپوں کے کچھ جنگجووں نے داعش میں شامل ہونے کے لیے نقل مکانی کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ داعش گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے حملے میں ملوث تھی جس میں 80 سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ داعش گزشتہ سال دسمبر میں صوبہ ننگرہار میں 10 اضلاع پر قابض تھی، لیکن جنوری میں جب سے امریکی صدر براک اوباما نے امریکی افواج کو انسداد دہشت گردی کے حملوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تب سے ان گروپوں کو کچھ علاقے چھوڑنے پڑے۔جنرل نکولسن نے بتایا کہ امریکی افواج اب افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں، تاکہ وہ ان اہم علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرسکیں جو پہلے داعش کے کنٹرول میں تھے۔