امریکہ کی ترکی میں بغاوت کی کوششوں کی مذمت

امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ کی ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم سے انقرہ میں ملاقات

منگل 2 اگست 2016 14:07

انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 اگست ۔2016ء ) امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے ترک وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت مذمت کی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے وزیر اعظم بن علی یلدرم سے انقرہ میں ملاقات کی ہے۔ترکی کے مطابق اس کے اتحادیوں نے تختہ پلٹنے کی ناکام کوشش کی مذمت کے بجائے اس کے خلاف ترکی کے اقدامات پر تنقید کی ہے۔

ترک وزیراعظم نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ تختہ پلٹنے کی کوششوں کی ناکامی کے بعد ترکی کی جانب سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ان کے دفتر سے جری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل ڈنفورڈ نے حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوششوں کی مذمت کی ہے اور وہ ترکی کی جمہوریت اور اس کے عوام کی حمایت کے لیے انقرہ تشریف لا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم یلدرم نے کہا: یہ انتہائی اہم ہے کہ ہمارے دوست اور اتحادی امریکہ نے ہمارے ملک اور جمہوریت کے خلاف تختہ پلٹنے کی دہشت گردانہ کوششوں پر واضح اور فیصلہ کن رویہ اختیار کیا ہے۔

ملاقات سے قبل امریکی فوج کے ترجمان کیپٹن گریگ ہکس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جنرل ڈنفورڈ تختہ پلٹنے کی حالیہ کوششوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کا پیغام دیں گے۔اس درمیان انقرہ میں بعض مظاہرین اس سے متفق نہیں ہیں اور انھوں نے بینر اٹھا رکھے ہیں جن پر لکھا ہے تختہ پلٹنے کی سازش کرنے والے ڈنفورڈ ترکی سے نکل جا اور ڈنفورڈ گھر واپس جا۔

فتح اللہ کو بھیجو۔ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ مذہبی رہنما فتح اللہ گلین کو ترکی کے حوالے کر دے کیونکہ اس کے مطابق وہ تختہ پلٹنے کی اس کوشش کے پس پشت ہیں جبکہ گلین ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔مسٹر یلدرم نے جنرل ڈنفورڈ سے گلین کی حوالگی کی دوبارہ درخواست کی ہے۔ترکی کی حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے جو اس کے مطابق تختہ پلٹنے کی حالیہ کوشش میں شامل یا اس سے کسی بھی طرح منسلک تھے۔

فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور تعلیمی اداروں سے دسیوں ہزار افراد کو یا تو گرفتار کیا گیا ہے یا پھر انھیں معطل کر دیا گیا ہے۔جنرل ڈنفورڈ نے انسرلک فوجی اڈے کا دورہ بھی کیا جسے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے کے لیے امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔جبکہ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ترکی کو نیٹو کے اہم رکن ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔خیال رہے کہ 15 جولائی کو رجب طیب اردوگان کے خلاف تختہ پلٹنے کی کوشش میں کم از کم 246 افراد ہلاک ہوئے۔