کسی گینگ کا عنصر ثابت نہیں ہوا ، 37.5فیصد بچے والدین کے تشدد آمیز سلوک کی وجہ سے گھروں سے فرار ہوئے ‘ کامران مائیکل

ما ں باپ اپنے رویوں پر نظرثانی کریں، 2.2فیصد بچے گمشدگی کے دوران جنسی تشددکا شکار ہوئے ،صرف پو لیس ہی نہیں ہر شہری اپناکردار اداکرے،بچوں کی گمشدگی روکنے کیلئے فوری طورپر معاشرتی آگاہی مہم شروع کی جائیگی ، گلی محلے کی سطح پر پو لیس کی جانب سے بنائی گئی امن کمیٹیوں کو بہت جلدفعال کیا جائے گا ،آخری بچے کے برآمد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی خصوصی اجلاس کے بعد بریفنگ

جمعہ 5 اگست 2016 22:53

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔5 اگست ۔2016ء) وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سینیٹر کامران مائیکل نے کہا ہے کہ ابھی تک لاہور میں بچوں کے اغواء میں کسی گینگ کا عنصر ثابت نہیں ہوا ، 37.5فیصد بچے اپنے والدین کے تشدد آمیز سلوک کی وجہ سے گھروں سے فرار ہوئے ،اس لیے ما ں باپ بھی اپنے رویوں پر نظرثانی کریں، بچوں کی گمشدگی کو روکنے کیلئے صرف پو لیس ہی نہیں بلکہ ہر ایک شہری کو اپناکردار اداکرنا ہے،بچوں کی گمشدگی روکنے کیلئے فوری طورپر معاشرتی آگاہی مہم شروع کی جائے گی ، گلی محلے کی سطح پر پو لیس کی جانب سے بنائی گئی امن کمیٹیوں کو بہت جلدفعال کیا جائے گا اور آخری بچے کے برآمد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایل ڈی اے کمیونٹی سنٹر لاہور میں بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں ، چائلڈپروٹیکشن بیورو کے افسران اورپنجاب اسمبلی کے اراکین کے ساتھ بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے منعقدہ خصوصی اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری سلطان ، ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب شہزادہ سلطان ، چیئرپرسن پنجاب کمیشن فار سٹیٹس آف ویمن فوزیہ وقار ، رکن پنجاب اسمبلی شہزادمنشی ، کانجی رام ، شکیل کھوکھر اور دیگر بھی موجود تھے۔

وفاقی وزیر کامران مائیکل نے کہا کہ بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے اِس اجلاس کی تمام سفارشات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے پیش کریں گے۔ بچوں کی گمشدگی روکنے کیلئے مجموعی طورپر ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے تمام حقائق منظر عام پر لے کر آئیں گے اور اس سلسلے میں فوری طورپر معاشرتی آگاہی مہم شروع کی جائے گی ، گلی محلے کی سطح پر پو لیس کی جانب سے بنائی گئی امن کمیٹیوں کو بہت جلدفعال کیا جائے گا۔

صرف پو لیس کو ہی نہیں بلکہ اس معاشرے کے ہر ایک فرد کو اپنا کردا ادا کر نا ہے ، آخری بچے کے برآمد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایسا نظام لانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی بچے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کے دوران ہی فوری طورپر اس کی تصویر بنا کر سکین کر کے چاروں صوبوں میں بھیجی جائے تاکہ بچوں کی جلد بازیابی کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔

کامران مائیکل نے بتایا کہ ابھی تک لاہور میں بچوں کے اغواء میں کسی گینگ کا عنصر ثابت نہیں ہوا ، سال 2015-16ء کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں کل 596کیسز رپورٹ ہوئے ، 440واپس آگئے ، 104پولیس نے تلا ش کیے ، 168کوگرفتار کیا گیا ، کل 544بچے واپس آگئے ، ابھی تک 52بچے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 37.5 فیصد بچے اپنے ماں باپ کے تشدد آمیز سلوک کی وجہ سے گھروں سے فرار ہوئے ، 21فیصد بچے ماں باپ کی جانب سے دیکھ بھال نہ کیے جانے کی وجہ سے لاپتہ ہوئے ، 15فیصد بچے ما ں باپ کے آئے روز آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آکر فرار ہوئے ، 4.6فیصد بچے موقع سے ہی بازیاب کروا لیے گئے ، 3.3فیصد بچے سکولوں اور مدرسوں میں اساتذہ کے تشدد کی وجہ سے فرار ہوئے ، 2.2فیصد بچے گمشدگی کے دوران جنسی تشددکا شکار ہوئے ، 1.56فیصداغواء کاروں نے خود ہی واپس کر دئیے ، 2مقدمات بانڈڈ لیبر کے بھی درج ہوئے ، 1کیس میں ہسپتال سے بھی بچوں کو اغواء کیا گیا ، اغواء ہونیوالے 70فیصد بچے 6سے 14سال کے ہیں۔

متعلقہ عنوان :