شام میں بشار الاسد نے مشہور عثمانی سلطان کا "فاتح" کا لقب ختم کر ڈالا

پیر 8 اگست 2016 14:43

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔08 اگست ۔2016ء) شام میں بشار الاسد کی وزارت تعلیم نے سکول کے طلبہ کے لیے تاریخ کی کتابوں میں بعض اصطلاحات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی ہے جس میں خاص طور پر عثمانی دور کو ہدف بنایا گیا ہے۔تعلیم سال 2016-2017 کے لیے تاریخ کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان " محمد فاتح" کے نام سے "فاتح" کی صفت کو حذف کر دیا گیا ۔

اس طرح کتاب میں ان کا نام صرف " محمد ثانی" رہ گیا ہے۔آٹھویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں ایک عبارت اس طرح سے تھی "ہم قسطنطنیہ کی فتح کو واضح کریں گے"۔ یہ عبارت تبدیلی کے بعد یوں ہو گئی ہے "ہم قسطنطنیہ پر قبضے کی اہمیت کو واضح کریں گے"۔ اس کے علاوہ "قسطنطنیہ کی فتح" کو بدل کر "قسطنطنیہ کا سقوط" یا "قسطنطنیہ میں داخل ہونے" سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

تاریخ کی کتابوں میں سلطنت عثمانیہ کے لیے استعمال ہونے والے "فتح" کے لفظ کو ہر جگہ سیاق کے برخلاف "داخل ہونے" یا "قبضے" کے الفاظ سے بدل دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ صیغہ "عثمانی فتح" سے تبدیل ہو کر "عثمانی داخلے" یا "عثمانی قبضے" سے تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں بشار الاسد کی وزارت تعلیم کی جانب سے سرکاری طور دی گئی ہدایات پر عمل میں لائی گئی ہیں۔

یہاں تک کہ بلقان کو بھی بنیادی تبدیلیوں کی لپیٹ میں لے لیا گیا ہے۔ اس کا صیغہ "بلقان کی فتح" سے "بلقان میں داخلہ " ہو گیا ہے۔ وہ تمام علاقے "جوعثمانیوں نے فتح کیے" یہ عبارت اب تبدیل ہو کر وہ تمام علاقے "جن پر عثمانیوں نے قبضہ کیا" ہو گئی ہے ۔یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ بشار الاسد کے پارلیمنٹ میں شام میں مذہبی تعلیم کا مضمون ختم کرنے کی تجویز پر غور جاری ہے۔

اس حوالے سے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز 28 جولائی کو زیر بحث لائی گئی۔ اس موقع پر چند ارکان کی جانب سے شدید مخالفت بھی سامنے آئی جن کو سیاسی حلقوں کی جانب سے اسلام پسند قرار دیا گیا۔شام میں دینی تعلیم کا مضمون ختم کرنے کا مطالبہ سب سے پہلے شامی حکومت کے مفتی احمد بدر الدین حسون کی جانب سے 2013 کے اواخر میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے مذکورہ مضمون کے بدلے "قومی تعلیم" کا مضمون شامل کرنے پر زور دیا تھا۔تاریخ کی کتابوں کی اصطلاحات میں بنیادی تبدیلیاں ظاہر کرنے والے دستاویز کی تصویر جاری ہونے کے بعد متعدد تبصرے سامنے آئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :