Live Updates

الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے فنڈز میں خوردبرد کے کیس پر موقف میں واضح تضاد

تحریک انصاف نے ایک جانب الیکشن کمیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ کمیشن کسی پارٹی کے فنڈز کے حوالے سے اس کا احتساب نہیں کر سکتا جبکہ دوسری طرف وہ پانامہ پیپرز پر وزیراعظم کی نااہلی کا موقف اختیار کیے ہوئے ہے تحریک انصاف کے سابق مرکزی رہنما اکبر ایس بابر کی جانب سے تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ میں خورد برد کے کیس کی سماعت 17اگست کو ہو گی

پیر 8 اگست 2016 20:14

اسلام آباد ۔ 8 اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔8 اگست ۔2016ء) الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے فنڈز میں خوردبرد کے کیس پر موقف میں واضح تضاد سامنے آیا ہے۔ تحریک انصاف نے ایک جانب الیکشن کمیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ کمیشن کسی پارٹی کے فنڈز کے حوالے سے اس کا احتساب نہیں کر سکتا جبکہ دوسری طرف وہ پانامہ پیپرز پر وزیراعظم کی نااہلی کا موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔

تحریک انصاف کے سابق مرکزی رہنما اکبر ایس بابر کی جانب سے تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ میں خورد برد اور امریکہ سے فنڈز منگوانے میں منی لانڈرنگ ثابت ہونے پر دائر کیے گئے کیس کی سماعت الیکشن کمیشن میں 17اگست کو ہو گی جبکہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ پیشی پر واضح موقف اختیار کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز میں خوردبرد کے کیس میں اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہونے کی وجہ سے مزید تاخیر نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن کی جانب سے سماعت کے دوران یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ ایک طرف تحریک انصاف الیکشن کمیشن سے ریفرنس دائر کر کے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ پانامہ پیپرز پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا۔ ذرائع کے مطابق یہ معاملہ ستمبر 2011ء میں سامنے آیا جب پارٹی فنڈز میں بے قاعدگی اور دفتری ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسے ڈالے گئے جبکہ ستمبر 2011ء میں اس وقت کے سیکرٹری اکبر ایس بابر نے عمران خان کو خط لکھ کر اس کی نشاندہی کی کہ ہنڈی کے ذریعے غیرقانونی طور پر فنڈز ٹرانسفر کیے گئے ہیں۔

انہوں نے اس کے فرانزک آڈٹ اور پارٹی کے اندر احتساب کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تاہم تبدیلی کی باتیں کرنے والے عمران خان نے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کی بجائے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا۔ مارچ 2013ء میں اس معاملے کو انتخابات تک التواء میں رکھنے کی کوششوں کے پیش نظر عمران خان کے قریبی مبشر موڈی اور اس کے بہنوئی اکبر ایس بابر کے گھر آئے جہاں انہوں نے کمیشن بنانے کی بجائے ایک خصوصی آڈٹ کمپنی کے ذریعے آڈٹ کی پیشکش کی اور ایک کمپنی کی خدمات بھی حاصل کر لی گئیں تاہم مئی میں انتخابات ہونے کے بعد اس کمپنی سے تعاون نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔

اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں ان تمام رکاوٹوں کے باوجود دسمبر 2013ء میں اس آڈٹ کمپنی نے اپنی رپورٹ میں فنڈز کی منتقلی میں منی لانڈرنگ کا تذکرہ کیا ہے تاہم عمران خان نے کرپٹ لوگوں کو نشاندہی ہونے کے باوجود تحفظ دیا ہے۔ نومبر 2014ء میں اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے تمام ثبوتوں کے ساتھ پٹیشن دائر کی جس پر پی ٹی آئی نے اپنے وکیل کے ذریعے یہاں موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

یکم اپریل 2015ء کو الیکشن کمیشن نے اس پر آرڈر پاس کرتے ہوئے اس کی جانچ پڑتال کی اور قرار دیا کہ فارن فنڈنگ اور ذریعہ کی تفصیلات موجود نہیں ہیں یہ تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تاہم تحریک انصاف نے اس حکم کی تعمیل کے بجائے شعیب شاہین کو تبدیل کر کے انور مسعود کو اپنا وکیل مقرر کر دیا جنہوں نے ایک بار پھر یہ موقف اختیار کیا کہ یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرے۔

اس حوالے سے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ ہم نے لاکھوں پاؤنڈ کے حامل اکاؤنٹس کی نشاندہی کی اور دفتر کے ملازمین کے اکاؤنٹس سے بھی آگاہ کیا۔ امریکہ سے غیرقانونی طور پر 30لاکھ ڈالر عمران خان کے دستخط شدہ دو کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں آئے کیونکہ امریکہ میں سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ کی اجازت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف نے 26نومبر 2015ء کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکم امتناعی کے لئے درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا کہ اکبر ایس بابر عام شہری ہے۔

عمران خان نے عدالت میں حلف نامہ جمع کرایا کہ میرے اکاؤنٹس کا احتساب عام شہری کی شکایت پر نہیں ہو سکتا جس پر اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ انہوں نے بنوری ٹاؤن سمیت ملک کے تین جید علماء سے اس حوالے سے فتویٰ بھی لیا جس میں انہوں نے فتویٰ دیا کہ عام شہری کو مکمل اختیار ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے مالی معاملات پر سوال اٹھا سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ہائی کورٹ میں زبانی طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک ہائی کورٹ فیصلہ نہیں کرتا، الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ نہیں دے سکتا تاہم چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کے روبرو یہ موقف اختیار کیا کہ انہوں نے ایسا بیان دینے کی ہدایت نہیں کی تھی۔ بعدازاں ہائی کورٹ میں بنچ بننے اور ٹوٹنے کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا جبکہ بعدازاں الیکشن کمیشن کے ممبران کی معیاد ختم ہونے اور نئی ممبران کی تعیناتی کی وجہ سے بھی تعطل آیا جس کے بعد 4اگست کو اس مقدمہ کی الیکشن کمیشن میں دوبارہ سماعت ہوئی جہاں پر الیکشن کمیشن نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر ہونے کی وجہ سے اب زیادہ تاخیر نہیں کریں گے۔

الیکشن کمیشن میں اس کیس کی سماعت اب 17اگست کو ہو گی۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات