ترک صدرروسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے مذاکرات کے لیے ماسکو پہنچ گئے

روس سے تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنا چاہتا ہوں،طیب اردگان

منگل 9 اگست 2016 13:33

ماسکو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔09 اگست ۔2016ء) ترک صدر رجب طیب اردوگان اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے مذاکرات کے لیے ماسکو پہنچ گئے ،ن کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات کا نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے مذاکرات کے لیے ماسکو پہنچ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی میں گذشتہ ماہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر اردوغان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔اردوغان ایک ایسے وقت روس کا دورہ کر رہے ہیں جب انھیں ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد کی جانے والی کارروائیوں پر مغربی ممالک کی تنقید کا سامنا ہے۔روس روانگی سے پہلے اردوگان نے روسی صدر ولادی میر پوتن کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کا نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اردوغان نے روس کی خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات میں مجھے یہ دورہ ایک سنگِ میل کے طور پر دکھائی دے رہا ہے اور ہم ایک بار پھر صاف نیت سے اس کی ابتدا کر رہے ہیں۔ترکی کی جانب سے گذشتہ سال شام کی سرحد کے قریب روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہو گئے تھے۔اس واقعے کے بعد روس نے ترکی پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ روسی شہریوں پر سیاحت کے لیے ترکی جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

روس کے صدارتی محل نے رواں برس جون میں کہا تھا کہ ترک صدر اردوغان نے جنگی طیارہ مار گرانے پر معافی مانگ لی تھی۔ترکی کے صدر نے روسی صدر کے نام ایک پیغام بھیجا تھا جس میں انھوں نے تباہ ہونے والے روسی طیارے کے پائلٹ کے خاندان والوں سے ہمدری اور تعزیت کا اظہار کیا تھا۔امید کی جا رہی ہے کہ روس اور ترکی کے درمیان منگل کو ہونے والے مذاکرات کا محور تجارت اور سرمایہ کاری کے علاوہ سیر و سیاحت جیسے اہم تعلقات کی بحالی پر ہو گا۔

روس میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار سارہ رینسفورڈ کا کہنا ہے کہ روس ترکی میں گذشتہ ماہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی اور مغربی ممالک کے سرد تعلقات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔خیال رہے کہ ترکی کی جانب سے فوجی بغاوت کے مشتبہ افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر یورپی یونین اور امریکہ کی تنقید نے اردوغان کو ناراض کر دیا تھا۔ترکی میں بغاوت کی کوشش کے بعد 18,000 ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔سرکاری اداروں میں کام کرنے والے 66,000 افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے اور 50 ہزار کے پاسپورٹ منسوخ کیے جا چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :