سانحہ کوئٹہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے،وزیراعظم کو انٹیلی جنس اداروں کو حکم دینا چاہیے کہ وہ ملزموں کا تعین کریں ،سماج دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں،سرکاری تقریبات میں وہ لوگ پہلی نشستوں پر موجود ہوتے ہیں جنہیں جیل میں ہونا چاہیے،دوسرے ملکوں کی پراکسی وار پاکستان میں لڑنے سے اجتناب ،کوئٹہ پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 9 اگست 2016 14:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔09 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے،وزیراعظم کو انٹیلی جنس اداروں کو حکم دینا چاہیے کہ وہ ملزموں کا تعین کریں ،سماج دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں،سرکاری تقریبات میں وہ لوگ پہلی نشستوں پر موجود ہوتے ہیں جنہیں جیل میں ہونا چاہیے،دوسرے ملکوں کی پراکسی وار پاکستان میں لڑنے سے اجتناب ،کوئٹہ پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے،وزیرتعمیرات و مکانات اکرم درانی نے کہا کہ ہمیں اپنے دشمنوں کا نام اشاروں میں نہیں بلکہ کھلم کھلا لینا چاہیے،میڈیا،فوج اور سیاستدانوں کو لڑانے کی سازش کر رہا ہے،میڈیا کو یہ سرٹیفکیٹ کس نے دیا ہے کہ وہ سیاستدانوں کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیں،پارلیمان کے دونوں ایوانوں کو سنجیدگی سے فیصلہ کرنا ہے تاکہ یہ نہ ہوکہ قوم اسے ہماری مجرمانہ غفلت سے تعبیر کرے۔

(جاری ہے)

میاں عبدالمنان نے کہا کہ آج ہم دنیا میں ناکارہ قوم کی طرح مشہور ہیں الزام تراشیوں پر ہمیں نوبل انعام ملنا چاہیے۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق کی زیرصدات ہوا،اجلاس میں سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بحث ہوئی اور معمول کی ایوان کی کارروائی معطل رہی،اس موقع پر امجد خان نیازی نے سانحہ کوئٹہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دہشتگردی کے خلاف موثر پالیسی بنانی ہوگی۔

مولانا گوہر شاہ نے کہا کہ دہشتگردی قابل مذمت ہے،صوبائی حکومتوں کو پولیس کی تربیت کرنی چاہیے۔میاں عبدالمنان نے کہا کہ تمام جماعتوں کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جانا ضروری ہوگیا ہے،آج ہم دنیا میں ناکارہ قوم کی طرح مشہور ہیں،ہمیں ہماری الزام تراشی کی سیاست پر نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔پارلیمانی لیڈر پیپلزپارٹی نوید قمر نے کہا کہ اس اہم بحث کے موقع پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو موجود ہونا چاہیے اور پالیسی بیان دینا چاہیے۔

اسپیکر نے کہاکہ وزیر مملکت موجود ہیں جواب میں نوید قمر نے کہا کہ حکومتی اولین نشستوں پر کوئی نہیں ہے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئٹہ میں ہرجگہ قانون نافذ کرنے والوں کے اہلکار موجود ہیں،12گلیوں کا کوئٹہ شہر بھی سنبھالا نہیں جارہاہے،یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے،ایک ماہ پہلے لاء کالج کا پرنسپل کو قتل کیا گیا اس کے قاتل ابھی تک نہیں پکڑے جاسکے،ہمارے ملک کے دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں،سرکاری تقریبات میں وہ لوگ اگلی نشتوں پر بیٹھے ہوتے ہیں ان کو جیل میں ہونا چاہیے،آج فیصلہ کردیا جائے کہ ہم کسی ملکی کی پراکسی وار نہیں لڑیں گے،ملک میں امن ہوجائے گا،وزیراعظم انٹیلی جنس اداروں کو حکم دیں کہ تحقیقات کریں اور اس کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور جو تحقیقات نہ کرے اسے فارغ کردیا جائے،دہشتگردی کی جنگ عوامی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی،تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں کر کام کرنا ہوگا،20کروڑ انسانوں کی طاقت بہت بڑی ہے،کوئٹہ حملے کو پورے ملک پر حملہ ڈکلیئر کیا جائے۔

وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اب ہم صرف مذمت کرسکتے ہیں،سانحہ کوئٹہ میں یہ حملہ کوئٹہ پر نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان اور آرمی چیف نے بیانات میں کہا کہ یہ حملہ سی پیک پر حملہ ہے تو سی پیک پورے ملک کا منصوبہ ہے،ہمیں اپنے دشمن کا نام اشاروں میں نہیں لینا چاہیے بلکہ کھلم کھلا نام لینا چاہیے،اگر امریکہ یا بھارت اس میں ملوث ہے تو نام لینا چاہیے،میڈیا فوج اور سیاستدانوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کرتا ہے،ٹی وی پر ایک تجزیہ کار کہتا ہے کہ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں غدار کا لفظ استعمال کیا ہے،پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو یہاں بلائے اور ان سے پوچھے کہ ان کو یہ سرٹیفکیٹ کس نے دیا ہے،اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا اور اس سے پارلیمنٹ کے ممبر بھی نہیں بچ سکیں گے،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو لائحہ عمل طے کرنا چاہیے یہ نہ ہو کے قوم اس کو ہماری مجرمانہ غفلت سے تعبیر نہ کرے۔

عبدالستار بچانی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے،سانحہ کوئٹہ میں بلوچستان کے وکلاء کی کریم اور نامی گرامی نام شہید ہوگئے۔ سندھ میں رینجرز کا مسئلہ پر وزیر داخلہ 6گھنٹے ٹی وی پر موجود ہوتے ہیں مگر اس مسئلے پر ایوان میں آنا گوارا نہیں کرتے،وزیراعظم کوئٹہ جاتے ہیں اور وزیرداخلہ بلیوایریا میں پھرتے رہے ،طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ تمام پارلیمنٹ کے ممبران کو چارٹر طیارے کے ذریعے ان لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور اپنی ایک ماہ کی تنخواہ ان لواحقین کو دی جائے۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ 1947سے آج تک ہم قوم نہیں بن سکے،ہمیں متحد ہوکر دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا،دہشتگرد ہمارے اتحاد کو چیلنج کر رہے ہیں،اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوتا تو آج کوئٹہ جیسے سانحات نہ ہوتے۔رجب علی بلوچ نے کہا کہ دہشتگردی میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ نشانہ بنتے رہے،مگر پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ،ہمیں سیاست سے احتراز کرنا چاہیے،ہمیں اپنے اداروں کی جانب انگلیاں نہیں اٹھانی چاہی۔شیر اکبر خان نے کہا کہ ہمیں امریکی اتحاد سے نکلنا ہوگا جب تک نہیں ہمیں انہی حالات کا سامنا کرنا پرے گا۔نعیمہ کشور نے کہا کہ اچکزئی،فضل الرحمان کو غدار بولنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے،پیمرا کو ان چینلز پر پابندی لگانی چاہیے